عورت کو نبی ﷺ نے وہ مقام دیا کہ اگر یہ بیوی ہے تو دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے، بہن یا بیٹی ہے تو جہنم کی راہ میں دیوار
ولی اللہ بن مولوی ابو مطیع اللہ
آج کل ایک پوسٹ بلکہ دو 3 پوسٹس ایک ہی سبجیکٹ کی واٹس ایپ پر اور میڈیا کے دیگر ذرائع پر وائرل ہورہی ہیں ، آپ لو گوں نے بھی شاید پڑھی ہوںگی ،ان پوسٹس میں بیٹی کی فضیلت اور مقام و مرتبہ ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیٹی اللہ رب العزت کی نعمت ہے، انعام ہے ، رحمت ہے۔ وہ زمانہ اب آہستہ آہستہ الحمد للہ ختم ہورہا ہے کہ لوگ بیٹی کو ناپسند کرتے تھے۔ یقین جانیں بہت سارے نوجوان ملتے ہیں ،بیٹی ہونے کی خوشی ان کے چہروں سے نظر آرہی ہوتی ہے ، یعنی اللہ کی نعمت ہے بیٹا ہو یا بیٹی ۔ صرف یہی نہیں بلکہ نبی ﷺ نے بیٹی کو جو اعلی مقام دیا ہے اور صرف بیٹی کو ہی کیوں ،عورت کو مجموعی طور پردیا ہے ، اسلام سے پہلے جہالت کے زمانے میں عورت کی کوئی قیمت نہیں تھی ، وہ چاہے کوئی بھی ہو بلکہ عورت کو بچی پیدا ہونے کی شکل میں زندہ درگور کردیا جاتا تھا ، قرآنِ کریم سورۃ التکویر ، آیت 8،9 میں ذکرموجود ہے :
{ وَاِذا الْمَوْوٗٔدَۃُ سُئِلَتْ ٭ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ}
نبی اکرم ﷺ آئے اور رحمت للعالمین کے مظاہرہوتے رہے ، عورت کو نبی ﷺ نے وہ مقام دیا کہ اگر یہ بیوی ہے تو دنیا کی سب سے قیمتی دولت ہے چنانچہ سنن نسائی ،صحیح الجامع اورصحیح ابن حبان میں ارشادِ نبوی ﷺ ہے : یہ دنیا ساری مال و متاع ہے اور دنیا میں سے سب سے قیمتی چیز نیک بیوی ہے (نسائی، ابن حبان، صحیح الجامع) ۔
عورت اگر ماں ہے تو فرمایا اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ، جیسا کہ صحیح الجامع میں نبی ﷺ کا ارشاد ہے۔ بہن یا بیٹی ہے تو جہنم کی راہ میں دیوار ، چنانچہ صحیح بخاری و مسلم اور سنن ترمذی میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے :
جو شخص اپنی دو بیٹیوں( یا بہنوں) کو تربیت دے کر انکی شادی کردے ،اسلامی تربیت پر اللہ رب العزت ان بیٹیوں (بہنوں)کو اس کیلئے جہنم کی راہ میں دیوار بنادیگا ۔(مسلم، ترمذی)۔
بیٹی کا اتنا بلندمقام ہے ، اس سے کسی کو انکار نہیں لیکن ان پوسٹوں میں بہت عجیب رنگ دیا گیا ہے ، مبالغہ کی انتہا کردی گئی۔ قرآن کی آیات کا موضوع توڑ موڑ کر بیان کیا، معنی و مفہوم تک بدل دیا گیا اور ان پوسٹس میں بعض چیزیں اس طرح لکھی ہیں : جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اللہ پاک فرماتاہے: جاؤ تم دنیامیں اور اپنے والد کی مدد کرو اور جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ پاک فرماتا ہے :جاو تم دنیا میں ، میں تمہارے والد کی مدد کرونگا۔پہلی بات یہ ہے کہ یہ کہاں لکھا ہوا ہے ؟قرآنِ کریم کی کسی آیت میں ہو ، نبی ﷺ کی کسی صحیح سند سے ثابت حدیث میں ہو، کہیں نہیں ملے گا ۔ انداز یہ کہ اگر بیٹا پیدا ہو تو کہا تو جاکے اپنے باپ کی مدد کراور اگر بیٹی پیدا ہو تو اللہ کہتا ہے میں تیرے باپ کی مدد کرونگا ،کیا بیٹوں والوں کی اللہ مدد نہیں کرے گا؟ بیٹی کے مقام سے کوئی انکار نہیں، ہم نے پہلے بھی ذکر کیا ہے لیکن اس طرح کی باتیں پھیلا کر لوگو ں سے پتہ نہیں کیا طلب کیا جاتا ہے ۔کہا :قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بیٹی مقدس ہے اور آیت بیان کردی سورت الصافات کی153 ، کہا : { أَصْطَفَیٰ الْبَنَاتِ عَلیٰ الْبَنِیْنِ} کیا اللہ نے اپنے لئے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ہے ؟ اب یہ آیت153ہے ،یعنی اللہ کریم تو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ تم نے اپنے لیئے بیٹے پسند کر رکھے ہیں اور میرے لیئے بیٹیاں ؟جبکہ اگلی ہی آیتوں میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمادیا :تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسے فیصلے کرتے ہو، کیا تم اس قدر بھی نہیں سمجھتے ۔
یعنی تمہیں تو بیٹے چاہئیں اور میرے لئے بیٹیوں کا انبار لگادیا ہے ۔ اس مذکورہ آیت کا سارے کا سارا مفہوم بدل کر اسے بیٹی کی فضیلت پر فٹ کردیا گیا ۔ قرآن کریم کی کوئی بھی طباعت اور قرآن کریم کے کسی بھی عالم کا ترجمہ لے لیں ، جو ترجمہ ان میں کیاگیا ہے کہ ’’کیا اللہ نے اپنے لیئے بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ہے؟‘‘ جوکہ اصل ترجمہ ہے ،اور یہ جو کہا گیا ہے کہ (اللہ نے بھی بیٹیوں کو بیٹوں پر ترجیح دی ہے )۔قرآن کریم میں تو کہیں بھی یہ بات نہیں ۔
اسی طرح حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ کے بارے میں کہا گیا ہے، انہوں نے جو نذر مانی تھی کہ جو بھی میرا بچہ پیدا ہوگا، میں اسے بیت المقدس کیلئے وقف کردونگی ، بیٹی پیدا ہوئی تو کہا : لڑکا لڑکی جیسا نہیں ہوتا ۔اس آیت کو توڑ موڑ کر لڑکی کی فضیلت پر فٹ کردیا ہے حالانکہ تمام علمائے تفسیر یہ بتا رہے ہیں کہ مریم علیہا السلام کی والدہ نے حسرت کے ساتھ یہ بات کہی کہ بیٹا ہوتا تو مسجدکیلئے وہ جو خدمت انجام دے سکتا تھا، بیٹی تو وہ نہیں دے سکتی لیکن اے اللہ یہ جو کچھ ہے تونے ہی عطا کیا ہے تو اسی کو قبول کرلے ، میں اسے بھی تیرے گھر کی خدمت کیلئے وقف کرتی ہوں۔ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے ایک عذر کے طور پر یہ بات پیش کی،ایک پوسٹ میں اسے الٹا کے یہ کہا ہے کہ بیٹی مقدس ہے اور ساتھ ہی حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی جو یہ دعاء ہے :
{رَبِّ ہَبْ لِيْ مِنَ الصَّالِحِیْن} ( الصٰفٰت100)۔
جسکا معنی ہے ’’ اے اللہ ! مجھے نیک اولاد عطا فرما‘‘۔ اس میں بیٹے بھی آتے ہیں اور بیٹیاں بھی آتی ہیں۔ اللہ رب العزت نے بیٹے عطا کئے لیکن صالحین میں عورت مرد، بیٹیاں بیٹے سب شامل ہیں ۔ اس آیت کو بھی بیٹی کی فضیلت پر فٹ کردیا ۔
اور ایک بات بڑے جذباتی انداز سے کہی گئی، کہا کہ اگر بیٹی مقدس نہیں ہوتی تو نبی ﷺ کا نسب حـضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کیوں شروع ہوا ۔
اب بتائیں اس میں کوئی ایسی بات نظر آتی ہے۔ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کا اپنا ایک مقام و مرتبہ ہے ، خود نبی اکرم ﷺ کی اپنی ایک خاص شخصیت ہے ، اب صرف اس بات کو لے کر کہا کہ اگر بیٹی مقدس نہ ہوتی تو یہ نہ ہوتا اور وہ نا ہوتا ، یہ ایک جذباتی انداز ہے۔ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کیلئے ، بیٹی مقدس ہے لیکن اگر بیٹی نیک ہے ، یہ بھی ساتھ شرط لگائی یا نہیں؟ حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا مقدس تھیںلیکن آج وہ بیٹیاں بھی تو پیدا ہوتی ہیں جنہیں خود انکے ماں باپ کہتے ہیں کہ کاش تو ہمارے یہاں پیدا ہی نہ ہوتی ، بیٹیاں ہیں ناں ایسی دنیا میں ؟ بیٹے بھی ہیں بیٹیاں بھی ہیں ۔پھر یہ کہا گیا کہ اگر کسی کے یہاں لڑکی یا بیٹی پیدا ہو پہلی اولاد کے طور پر تو یہ بیٹی عورت کیلئے باعثِ برکت ہے ۔ کبھی کسی حدیث کے حوالہ سے سنی ہے یہ بات آپ نے ؟ لوگ عموماً شروع سے لیکر جاہلیت کی وجہ سے بیٹی کو پسند نہیں کرتے آرہے ۔ وہ یہ بھی کہتے آرہے ہیں کہ عورت کے یہاں پہلا بیٹا ہو تو یہ اسکے لئے اچھا ہوتا ہے ، کئی شوہر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ عورت کو چھوڑنے کے چکر میں ہوتے ہیں کہ اسکے یہاں بیٹیاں ہی پیدا ہوتی ہیں لہٰذا اسکو چھوڑدیں، اب کے حمل ہوا بیٹا پیدا ہوگیا تو سارے کا سارا معاملہ ہی ختم ہوگیا ،کہتے ہیں کہ اب بیٹا پیدا ہوگیا ہے، چلے گا اور یہاں الٹا بیان کیا جارہا ہے کہ اگر کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہو تو یہ عورت کیلئے باعثِ برکت ہے ۔اور دلیل ندارد اور ایک مسئلہ حدیث کے طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ (بیٹیوں والوں کو برا مت کہو کیونکہ میں بھی بیٹی والا ہوں ) نبی ﷺ کی طرف باتیں منسوب کرتے کرتے عجیب و غریب بات کردی ۔ پہلی بات یہ کہ یہاں تھوڑا سا غور کرکے دیکھیں ، نبی ﷺ بیٹی والے تھے یا بیٹیوں والے تھے، آپ کی4 بیٹیاں تھیں ،ان کی باتوں سے کچھ کچھ محسوس ہوتا ہے کہ شاید عقیدے میں کہیں شیعیت پائی جاتی ہے کہ گویا نبی ﷺ کی صرف ایک ہی بیٹی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا ہی تھیں اور یہ باقاعدہ انکے یہاں مشہور ہے کہ نبی ﷺ کے داماد صرف علی رضی اللہ عنہ ہیں جبکہ دوہرے داماد ذو النورین حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ہیں ، انکا پتّا ہی کاٹ دیا جاتا ہے ،صرف اس لئے کہ حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما ہی کو شمار کیا جائے ۔ کہا گیا کہ میں بھی بیٹی والا ہوں، اس لئے بیٹیوں والوں کو بُرا نہ کہو، بیٹیوں والوں کو بُرا کون کہتا ہے ؟ اگر کہیں ساس بہو کی لڑائی ہے ، میاں بیوی کی لڑائی ہے اور کچھ ایسے لوگ ہیں جہالت میں آکے ایک یا دو یا تیسری بیٹی پیدا ہوجائے تو طلاقیں تک ہوگئیں ، یہ اس آدمی کی جہالت ہے ، اس ساس کی جہالت ہے ، اس میں اس بیٹی کا تو کوئی قصور نہیں لیکن اس میں اس بیٹی کی فضیلت کہاں سے آگئی کہ بیٹی مقدس ہے۔ ادھر اسی کی وجہ سے ماں کو طلاق ہوگئی ہے ، یہ تو جہالت ہے تاہم اسے کسی کے تقدس پر یا کسی کی برکت پر دلیل بنانا یہ کوئی معنی ٰ نہیں رکھتا بلکہ یہ تو سیدھا سیدھا لگتا ہے کہ نبی ﷺ کے بیٹوں اور بیٹیوں کا شمار اپنی دلیل بنایا جارہا ہے حالانکہ آپ ﷺ کے3 بیٹے تھے ، آپ ﷺکی 4بیٹیاں تھیں ، لہـٰذا آپ ﷺ کا یہ کہنا کہ میں بیٹی والا ہوںمحض آپ ﷺ کی طرف منسوب کیا گیا ہے ، اگر آپ کا یہ کہنا ہوتا کہ میں بھی بیٹیوں والا ہوں تو کوئی معقول بات ہوتی ، پوسٹس اس طرح کی باتیں کرکے بہت ساری چیزیں جمع کردی گئی ہیں ۔
کہتے ہیں کہ باہر سے آؤ، کوئی چیز کھانے پینے والی پھل یا کچھ لے کے آؤ تو سب سے پہلے بیٹی کو دینی ہوگی ، اب یہ باتیں ترغیب کیلئے تو اچھی ہیں لیکن ان باتوں کو نبی ﷺ کی طرف منسوب کردینابہت بڑی جسارت ہے ۔ ترغیب کیلئے اچھی ہیں کہ لوگ چونکہ جہالت میں تھے ،بیٹی کو ناپسند کرتے تھے لہٰذا کہا گیا کہ یہ بیٹی کو پہلے دو گویا کہ تمہارے دلوں میں بیٹی کیلئے محبت بڑھے ، دوسرے لوگوں کیلئے فائدہ مند ہو، لیکن اسے نبی ﷺ کی طرف منسوب کریں یا اللہ رب العزت کی طرف منسوب کریں تو یہ بہت بڑی جسارت ہے ۔
کہتے ہیں :’’اللہ کسی سے خوش ہو تو اسکو بیٹی عطا کرتا ہے اور جب کسی کو خوش کرنا ہو تو بیٹا عطا کرتا ہے‘‘ یہ محض الفاظ کی ہیرا پھیری اور لفاظی کے ساتھ مسائل بیان کرکے اپنا الّو سیدھا کرنے کا چکر ہے ۔
’’کسی سے خوش ہو تو بیٹی دیتا ہے اور کسی کو خوش کرنا ہو تو بیٹا دیتا ہے ‘‘، یہ بے دست و پا بات ہے۔ کہا گیا ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ہے : ’’اللہ جب خوش ہوتا ہے تو کسی کے گھر مہمان بھیج دیتا ہے ، جب زیادہ خوش ہوتا ہے تو بارش برسا تا ہے اور جب زیادہ ہی خوش ہوتا ہے تو اسے بیٹی سے نواز دیتا ہے‘‘۔ اب آپ یہ سارے اسٹیپ دیکھیں کہ یہ کس طرح شروع کئے گئے ، اللہ جب خوش ہوتا ہے تو اسکے گھر مہمان بھیج دیتا ہے اور جب زیادہ خوش ہوتا ہے تو بارش برساتا ہے اور جب بہت ہی زیادہ خوش ہوتا ہے تو بیٹی عطا کرتا ہے ۔ یہ’’ احادیث‘‘ کہاں سے لی گئیں ؟کہاں سے یہ باتیں نقل کی گئیں ؟
کہا گیا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : (لڑکیوں والوں سے کہہ دو کہ ان نو نہالوں کے بارے میں غم گین اور تنگ دل نہ ہوں ، میں نے ہی انہیں پیدا کیا ہے اور میں ہی انکو روزی دونگا )۔ استغفر اللہ !نبی ﷺ یہ کلمات کہیں گے ؟ یا پھر یہاں یہ بات ذکر کرو کہ نبی ﷺ نے ایک حدیثِ قدسی میں فرمایا ہے ، یانبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کہتا ہے کہ میں نے انہیں پیدا کیا اور میں ہی انکو روزی دونگا۔ تب یہ بھی پوچھا جائے کہ یہ کس سند سے بیان ہوئی ۔ کہاں کی باتیں کہاں منسوب کرکے اپنا سیدھا کیا ہوا ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’یہ بیٹیاں جو ہیں یہ تو پریاں ہوتی ہیں‘‘ ،اب آپ یہ بتاسکتے ہیں کہ پریاں کہاں ہوتی ہیں ؟ پڑھے لکھے لوگ ہیں آپ ، پری کا دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں ، اس پوری کائنات میں ’’پری‘‘ کا کوئی وجود ہی نہیں ، ان لوگوں نے پری بھی بنائی پرستان بھی بنایا (پریوں کا ملک )، اور بیٹی کو پری بنادیا جس کا دنیا میں کوئی وجود ہی نہیں اور اسی سے بیٹی کی فضیلت بنا ڈالی اور بیان کی ۔
بیٹی کی بہت زیادہ فضیلت ہے ،بیٹی کا بہت بڑا مقام ہے اور اس سارے مقام کا اصل سبب تقوی ،نیکی اور پرہیزگاری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی ﷺ نے بیٹی کو بہت عزت دی ، نبی اکرم ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا آپ کے گھر داخل ہوتیں ، دروازے سے داخل ہوتیں تو آپ ﷺ اپنی جگہ سے اٹھ کر استقبال کیلئے کھڑے ہوتے حتی ٰ کہ آپ ﷺکے کندھے سے چادر گرجاتی ، نبی ﷺ نے بیٹی کو بہت مقام دیا لیکن وہ بیٹی کون ہے ؟ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا ۔اس حد تک جو مقام ہے، اسے اسی حد تک ہی چھوڑیں، اتنی اول فول باتیں جمع کرکے اور پھر انہیں حدیثوں اور اللہ کے فرمانوں کا نام دے کر اور قرآنی آیات بتا کر انکے معنی توڑ پھوڑ کر اپنا الّو سیدھا کرنا یہ کوئی صحیح بات نہیں اور اسکو پھر میڈیا میں ڈال دیا ، آج آپ غلط کہیں ، صحیح کہیں ،منٹوں میں بات لاکھوں لوگوں کو پہنچ جاتی ہے ، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ہدایت دے جو بغیر کسی دلیل کے بغیر کسی حوالے کے ،کہیں گے حدیث ہے ، چیک کریں تو لکھا ہوا ہے صحیح بخاری، اور صحیح بخاری میں وہ حدیث ہے ہی نہیں ۔
اس طرح کے دھوکے دینے کا کیا معنیٰ کہ سیدھے سادے لوگ ہیں، انہیں معلوم ہے کہ قرآنِ کریم کے بعد صحیح ترین کتاب بخاری شریف ہے، لوگ کہیں گے کہ بخاری میں آیا ہے بس مان لو ، منوانے کا یہ طریقہ جھوٹ بول کر لوگوں کو دین سکھاؤ گے ؟ صحیح اور سچی بات ہو ،تحقیق کے ساتھ ثابت ہو ،اسے آگے سینڈ کرنا چاہئے۔