Home ادارے_کی_پسند شیر، لومڑی اور گدھا

شیر، لومڑی اور گدھا

0
64

انتخاب و اضافہ: محمد عمران خان

ایک مرتبہ قدرت نے گناہوں کی کثرت کے سبب اہلِ دنیا کو مہلک وبا میں مبتلا کر دیا۔ اور ہر زی روح اپنی جان سے بیزار ہوگیا جنگل کے جانور بھی اس سے نہ بچ سکے۔ جانوروں میں ہلاک تو کوئی نہ ہوا مگر انکی حالت مُردوں سے بدتر تھی۔ زندہ رہنے کی خواہش کسی میں نہ رہی۔ چھوٹے جانورو ں کو درندوں کا کوئی خوف نہ رہا۔ دراصل کسی کو خوراک کی پرواہ تھی نہ جینے کی آرزو۔ سب اپنی اپنی جگہ پڑے موت کا انتظار کر رہے تھے۔ پرندوں کی جان فرا سریلی  آوازیں اب خاموش ہوگئی تھیں۔ کیونکہ پیار اور خوشی تو دور جاچکی تھی۔

جنگل کے بادشاہ شیر سے نہ رہا گیا اور اسنے کراہتے ہوئے جانوروں سے مخاطب ہو کر کہا بھائیو ! خدا کی طرف سے نازل ہونے والا یہ عذاب مجھے تو کس کی شامتِ اعمال نظر آتی ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ ہم میں سے جو سب سے زیادہ گناہگار ہے وہ خود کو قربانی کے لئے پیش کردے۔ مجھے یقین ہے کہ اسکے خون کے عوض یہ عذابِ خداوندی جسمیں ہم سب مبتلا ہیں ٹل جائے گا۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ اس قسم کی مصیبتیں قربانی سے دور ہوتی ہیں۔ ہمیں غیر جانبدار اور کڑی احتسابی نگاہ سے اپنے ضمیر کو ٹٹولنا ہوگا۔

سب سے پہلے میں اپنا کچا چٹھا آپ سب کے سامنے کھولتا ہوں۔ میں اپنے پاپی پیٹ کی خاطر بے شمار معصوم بھیڑیں کھا چکا ہوں۔ اور مجھے یہ بھی یاد پڑتا ہے کہ ایک روز مجھے شکار نہ ملا تو میں نے اپنی بھوک مٹانے کے لئے ایک چرواہے کو ہلاک کرڈالا تھا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے یہ گناہ خدا کے عذاب کو دعوت دینے کے لئے کافی ہیں۔ لہذا قربانی کے لئے میں خود کو بارضا و رغبت پیش کر نے کے لئے تیار ہوں۔ لیکن ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ ہم میں اور بھی ایسے ہوں گے کہ ان سے بھی گناہوں کا ارتکاب ہوا ہوگا۔  چنانچہ اتمامِ حجت اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب اپنے اپنے گناہوں کو بیان کریں تاکہ سب سے بڑے خطا کار کو قربانی کے لئے الگ کیا جاسکے۔

شیر کی یہ بات سنکر لومڑ بول پڑا ۔ عالم پناہ! خدا آپکا اقبال بلند کرے۔ آپ جیسے باضمیر بادشاہ کہاں ملتے ہیں۔ آپ خود کو خطاکار کیوں سمجھتے ہیں۔ الگ سے پیدل اور دھرتی کے بوجھ ان بھیڑوں کو اگر آپ نے تناول فرمایا تو اسمیں گناہ کی کونسی بات ہے۔ سچ پوچھئے تو بھیڑ جیسے بے وقعت جانور کے لئے یہ اعزاز کی بات ہے کہ بادشاہ سلامت اسے اپنی خوراک بنانے کا شرف بخشیں۔ رہی بات گڈریے کی تو اسکا تعلق انسانوں کی قبیل سے تھا۔ انکے ساتھ تو جتنا برا کی جائے وہ کم ہے کہ یہ خود کو اشرف سمجھتی ہے۔ او رہم پر حکمرانی کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ اور مختلف حیلوں سے ہم پر قابو بھی پالیتی ہے۔ لہذا حضور یہ خیال بھی دل میں نہ لائیں کہ آپ سے کوئی برا فعل سرزد ہوا ہے ۔ قربانی دیں آپکے دشمن ۔ اتنا کہہ چکنے کے بعد لومڑ نے جنگل کے دیگر جانوروں سے تائید طلب لہجے میں پوچھا کیوں دوستو ! کیا میں غلط کہہ رہا ہوں! ہر گز ہر گز نہیں۔ بادشاہ سلامت تو بہت اچھے ہیں۔ چاروں طرف سے خوش آمدی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

اسی طرح چیتے ، ریچھ اور دیگر خونی درندوں کو بھی پارسا  اور بزرگ ٹھہرایا گیا۔ انکے بیان کئے گئے گناہ خواہ کتنے ہی گھناؤنے ہوتے تمام جانور انھیں اوصاف شمار کرتے۔ پھر گدھے کی باری آئی ۔ اسنے اپنا گناہ بیان کرنا شروع کیا:

ایک مرتبہ کسی گرجے (church) کے پچھواڑے اُگے سبزہ زار سے میر گزر ہوا مجھےچونکہ بھوک لگی ہوئی تھی۔ لہذا لہلہاتی گھاس دیکھ کر میں اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا اور پیٹ بھر کر تو نہیں تاہم تھوڑا سا گھاس ضرور چر لیاتھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ گرجے کی گھاس چرنے کا مجھے کوئی حق نہیں تھا۔  اسکی بات ختم ہوتے ہی سب جانور اسے لعنت ملامت کرنے لگے ۔ بھیڑیئے نے اسے سب سے بڑا پاپ قرار دیا اور بولا: یہ مصیبت جو ہم پر نازل ہوئی ہے گدھے کے اس قبیح فعل کی وجہ سے ہے بتایئے تو بغیر اجازت اسے کسی جگہ گھاس چرنے میں ذرا شرم نہیں آئی۔ اسنے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ کتنا عظیم گناہ ہے۔ قربانی کے لئے گدھا سب سے موزوں قرار پایا۔

 ( The best fables of Lafontaine, Gen De La Fontaine 1621-95)

*حاصلِ حکایت:*

کمزور ہونا یوں تو ایک عیب ہے ہی لیکن  یہ عیب اس صورت میں  مزید قبیح ہوجاتا ہے جب  دشمن اس ضعف و ناتوانی سے بھرپور فائدہ  اٹھاتا ہو۔ تقسیمِ برصغیر کے بعد کی پاک و ہند کی  تاریخ اسی حقیقت کو بیان کرتی نظرآتی ہے۔  پاکستان سے کئی گنا بڑے بھارت کو جب بھی موقع ملا اس نے پاکستان کو ہر محاظ پر  زچ  اور تنگ کرنے اور اسکی پیٹھ میں چھُرا گھونپنے کا  موقع تراشا ہے۔  چاہے وہ 1998 کے ایٹمی ہتھیاروں کے ٹیسٹ ہوں یا ریاست جموں و کشمیر کا معاملہ ۔ بھارت ہمیشہ  پاکستان کو اسکے جرمِ ضعیفی کی سزا دینے کو تیار رہتا ہے۔

اقبال بالِ جبریل میں کہتا ہے:

اے مرغکِ بیچارہ! ذرا یہ تو بتا تُو

تیرا وہ گُنہ کیا تھا یہ ہے جس کی مکافات؟

افسوس، صد افسوس کہ شاہیں نہ بنا تُو

دیکھے نہ تری آنکھ نے فطرت کے اشارات

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جُرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات!

اقبال نے اپنے پیغام اور فکری اظہار کےلئے کچھ کرداروں کا انتخاب کیا جو کسی نہ کسی حیثیت سے ممتاز ہیں۔ اس نظم کے مرکزی کردار ابوالعلا معری عربی کے مشہور شاعر تھے۔وہ نابینا تھے مگر بلا کے حافظہ اور قوتِ احساس کے مالک تھے۔ غفران اور لزومات ان کی شہرہ آفاق کتب ہیں جن کا تذکرہ تیسرے شعر میں کیا گیا ہے ۔ ایک تاریخی روایت سے نظم کا آغاز کیا گیا ہے کہ معری گوشت کھانے سے پرہیز کرتے تھے۔ ایک دن ان کے دوست نے چالاکی سے بھنا ہوا تیتر بھیجا کہ شائد وہ اس کی لذت کے سبب اپنی قسم توڑ دیں لیکن انہوں نے معمول ترک نہ کیا۔ تا ہم وہ جو لزومات اور غفران کا تخلیق کار تھا تیتر سے یوں مخاطب ہوا،

“اے ناتواں پرندے! تجھے آخر کس گناہ کی سزا ملی ہے۔ تیرے اس انجام پر مجھے بہت افسوس ہے لیکن تو نے فطرت کے اشارات نہیں سمجھے، اگر تم شاہیں کی طرح بلند حوصلہ ہوتے تو اس طرح دستر خوان پر نہ پڑے ہوتے۔ اور میرا یہ قول سن لے کہ ” تقدیر کے قاضی کا ازل سے یہ فتوی جاری کیا ہوا ہے کہ ناتوانی اور کمزوری کا انجام موت کے سوا کچھ نہیں ہوتا، وہ طاقتور کا شکار بن جاتے ہیں اور ہر طرح کے منصب اور اعزاز سے محروم ہو کر اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔”

لہذا تاریخ کا سبق یہی ہے کہ ہندو جیسے ازلی  دشمن کے مقابلے میں پاکستان کو  اس قرآنی پیغام پر سختی سے عمل پیرا رہنا چاہئے:

*”تم انکے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری  کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور انکے سوا اوروں کو بھی، جنھیں تم نہیں جانتے۔ اللہ انھیں خوب جانتا ہے۔ جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں صرف کرو گے وہ تمھیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمھارا حق نہ مارا جائے گا۔”

 (الانفال8: 60)*

NO COMMENTS

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here