مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔۔۔(التوبہ9: 36)
قمری یا اسلامی تقویم کا بارھواں مہینہ “ذی الحجہ” حرمت والے مہینوں(الشھر الحرام) میں سے ہے۔
حرمت والے مہینے چار ہیں: (1)رجب ۔۔۔(2)ذی القعدہ۔۔۔ (3)ذی الحجہ ۔۔۔(4)محرم
ان مہینوں کی حرمت کے دومفہوم ہیں ۔ ایک یہ کہ ان میں قتل و خون ریزی حرام ہے اور دوسرا یہ کہ یہ مہینے مبارک اور محترم ہیں ۔ ان میں نیکیوں کاثواب زیادہ اور برائیوں کا گناہ زیادہ لکھا جاتا ہے ۔ پہلا مفہوم کہ ان میں قتل و قتال حرام ہے ۔ شریعت اسلامیہ میں منسوخ ہو چکا ہے جبکہ دوسرا کہ یہ قابل احترام اور متبرک ہیں،ابھی بھی اسلام میں باقی ہے ۔(معارف القرآن:4-372أیسر التفاسیر :۲!۷۴)
عشرہ(Decade) ذوالحجہ کی فضیلت:
عشرہ = 10
عشرہ ذی الحجہ = بارہویں اسلامی مہینہ کے ابتدائی 10 دن
قرآن مجید ، میں اللّٰہ رب العزت نے دس راتوں کی قسم کھائی ہے (ولیالٍ عشر) (سورۃ الفجر89: 2)۔ جمہور علماء کے نزدیک وہ دس راتیں یہی عشرہ ذی الحجہ کے ایام ہیں۔
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: جتنا کوئی نیک عمل اللّٰہ کو ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجہ) میں پسند ہیں اتنا کسی دن پسند نہیں۔ پوچھا گیا یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جہاد فی سبیل اللّٰہ بھی نہیں؟ جواب دیا۔ ہاں جہاد فی سبیل اللّٰہ بھی نہیں، مگر جو شخص اللّٰہ کی راہ میں جان و مال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس نہ لوٹا(شہید ہوگیا)(صحیح بخاری)۔ سلف صالحین ، اکابر ینِ امت اور صالحین تین عشروں کی بہت تعظیم کرتے اور انمیں عبادت و ریاضت کا خاص خیال رکھتے ہیں:
▪ذی الحجہ کا پہلا عشرہ
▪رمضان کا آخری عشرہ
▪محرم کا پہلا عشرہ
حافظ ابن حجر ؒفتح الباری میں فرماتے ہیں: عشرہ ذی الحجہ کی برتری کا سبب یہی ہے کہ اسمیں نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج جیسی اساسی عبادات جمع ہوجاتی ہیں، جبکہ دوسرے دنوں میں ایسا نہیں ہوتا۔
عشرہ ذی الحجہ کے اعمال Deeds :
تکبیرات یا تکبیرِ تشریق:
ذی الحجہ کا چاند نظر آجانے کے بعد 13ذی الحجہ تک گھروں اور بازاروں میں آہستہ یا بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے رہیں۔
ابن عمر و ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما ان دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور با آوازِ بلند تکبیرات کہتے، لوگ بھی سنکر تکبیرات کہنے لگ جاتے ۔
9 ذی الحجہ کی نمازِفجر تا 13 ذی الحجہ کی نمازِ عصر تک ہر فرض نماز کے بعد ایک بار تکبیرِ تشریق پڑھنا چاہئے۔
واذکرواللہ فی ایامِ معدودات(البقرۃ2: 203) سے مراد ایامِ تشریق ہیں( تفسیر ابنِ کثیر)
محمدالرسول اللہ ﷺسے مروی ہے: “اللّٰہ کے ہاں کوئی عمل اتنا باعظمت اور محبوب نہیں ہوتا جتنا وہ عمل ہے جو ان دس دنوں میں کیا جائے، تم ان دس دنوں میں کثرت سے :
تہلیل *لا الہ الااللہ*
تکبیر *اللّٰہ اکبر*
تحمید *الحمدللّٰہ*
کا ورد کرو۔”(مسند احمد)
*اللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، لا الہ الا اللّٰہ واللّٰہ اکبر، اللّٰہ اکبر، و للّٰہ الحمد*
یومِ عرفہ کا روزہ:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “عرفہ (9 ذی الحجہ) کے دن روزہFast رکھنے سے مجھے اللّٰہ سے امید ہے کہ گزشتہ اور آئندہ (دو سال) کے گناہ (وہ)معاف فرما دے گا”(ترمذی)۔
✋یاد رہے 9 ذی الحجہ کا روزہ، سعودی عرب(ایام الحج) کے بجائے اپنے ممالک کے روئیتِ ھلال() appearance of the new moon کے مطابق رکھا جائے۔
حجامت Haircutting کی ممانعت:
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جو قربانی کا پختہ ارادہ رکھتا ہو وہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد قربانی کے ذبح ہونے تک اپنے بال اور ناخن Hairs n Nails نہ کٹوائے (مسلم)”
قربانی ، نمازِ عید کی ادائیگی کے بعد کی جاتی ہے۔
قربانی:
“قربانی” سے مراد وہ جانور ہے جو عید الاضحیٰ( بقرہ عید) کے دن اللّٰہ تعالٰی کا قرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کیا جائے۔Slaughtering of Prescribed Animals in way of ALLAH
قربانی سنتِ ابراہیمی ہے۔ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ کے حکم پر ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بڑے اور اکلوتے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کو ذبح کرنے لٹایا مگر اللہ نے انکے فدیہ میں مینڈھا عطا فرما دیا (الصفات37: 100 تا 113)۔
ارشادِ ربانی ہے: “اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر(الکوثر108)”
حضرت محمد ﷺسے مروی ہے: “دس ذی الحجہ کو خون بہانے (قربانی ذبح و نحر کرنے) سے بڑھکر ابنِ آدم اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں کوئی بہتر عمل نہیں کرتا۔ یہ جانور روزِقیامت اپنے سینگوں، کھروں اور بالوں سمیت آئیں گے اور خون کے زمین پر گرنے سے پہلے اللّٰہ کے ہاں اسکا بلند مقام ہوتا ہے، اور ہر بال کے بدلے ایک نیکی بھی ملے گی(ترمذی، ابنِ ماجہ)”
✋”نحر” =اونٹ کو خاص طریقہ سے ذبح کرنا۔
✝✡ اہل کتاب، حضرت اسحاق علیہ السّلامProphet Isaac کو ذبیح اللہ بتاتے ہیں۔ عہد نامہ قدیم میں اس حوالہ سے تضاد بیانیاں پائی جاتی ہیں۔
اہلِ کتاب = یہودی و عیسائی= یہود و نصاریٰ Jews & Christians۔
عہد نامہ قدیم= Old Testament = تورات وغیرہ
☪چند تائیدی ثبوت:
1۔۔۔قرآن مھیمن میں حضرت اسماعیل ؑ کے ذبیح اللہ ہونے کے تذکرے کے بعد حضرت اسحاق ؑکی پیدائش کی بشارت دی گئی(الصافات37: 112)۔
2۔۔۔ قرآن ِ مھیمن ،حضرت اسماعیل ؑ کو میں “بغلٰمٰ حلیم”(سعادت مند لڑکا) کے لقب سے پکارتا ہے (الصافات37: 101) جبکہ حضرت اسحاق کو “غلٰم علیم” (الحجر15: 53) کا لقب دیا گیا ہے۔
گویا:
بڑا بھائی (اسماعیل ؑ) عجز و انکساری Humbleness & Modestyمیں بڑھا ہوا تھا جسنے اپنے آپ کو فوراً قربانی کے لئے پیش کردیا جن سے خاتم النبیین محمد الرسولﷺکی بعثت ہوئی۔ گویا:
*مسلمان=* دنیا میں خلیفۃ اللّٰہ۔۔ داعیِ توحید۔۔ آخرت کی کامیابی کا مبشر۔۔ مرجوع الی الرسالت۔۔ محافظِ شرع ۔۔ معلمِ تزکیہ نفس ہے۔
چھوٹا بھائی ’’علم Knowledge‘‘میں زیادہ تھا جس سے بنی اسرائیل میں نبوت چلی۔
قربانی کے ایام کونسے ہیں اس بارے میں کئی آراء ہیں مثلاً :
قربانی کے کل تین دن ہیں دس تا بارہ ذی الحجہ۔یہ قول امام ابو حنیفہؒ (دیو بندی و بریلوی) اور امام مالک ؒ کا ہے۔
صحیح مسلم کے شارح جناب امام نووی ؒ کہتے ہیں: امام شافعی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں دس ذی الحجہ سے تشریق کے تین دن تک (قربانی کے) چار دن ہیں(10 تا 13)۔ حضرت علی، جبیر بن مطعم، ابن عباس رضی اللہ عنہم اور امام عطا (استاذ امام ابو حنیفہ )، حسن بصری، سلیمان بن موسیٰ الاسدی، فقیہ اہلِ شام امام مکحول اور داؤد ظاہری رحمہ اللّٰہ علیہم اجمعین وغیرھم کا یہی مسلک ہے۔
متفقہ امر یہ ہے کہ 10 ذی الحجہ(یوم النحر) یعنی پہلے دن قربانی افضل ہے، بقیہ دنوں میں افضلیت میں بتدریج کمی آتی جاتی ہے ۔
عید الاضحیٰ (بقر عید ) کا دن حجاج کرام Pilgrims کے لئے یوم النحر(10ذی الحجہ) ہے۔ اور غیر حاجیوں کے لئے 10 ذی الحجہ و مابعد کے دن ہیں۔
صاحبِ نصاب یا صاحبِ استطاعت:
1۔۔۔احناف کا موقف ہے کہ : مولانا عاشق الہٰی دیوبندی حنفی ،عید الاضحیٰ اور قربانی میں لکھتے ہیں: امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ نے صاحبِ نصاب(جسپر زکوٰۃ فرض ہو) پر قربانی ’’واجب ‘‘قرار دی ہے۔اگر کسی کے پاس ایک آدھ دن پہلے ہی ایسا مال آیا جس کے ہونے سے قربانی واجب ہوتی ہو تو اسپر کل کو قربانی واجب ہو جائے گی،سال کا گزرنا ضروری نہیں۔
2۔۔۔ سلفی یا اہلحدیث حضرات کا موقف ہے کہ: مولانا محمد اسمٰعیل اسد سلفی قربانی کے احکام و مسائل میں لکھتے ہیں: قربانی ’’سنتِ مؤکدہ ‘‘ہے۔
چونکہ شارع اسلام حضرت محمد ﷺکبھی صاحبِ نصاب نہیں ہوئے اسکے باوجود دس سالہ دورانِ قیامِ مدینہ، انھوں نے ہر سال قربانی کی۔نیز دورانِ سفر بھی قربانی فرمائی، لہذا امام بخاری رحمہ اللّٰہ نے اس سے مسافروں کے لئے بھی قربانی کرنے کا حکم ثابت کیا۔ اسلئے ہمارا رجحان یہ ہے کہ قربانی کے لئے صاحبِ نصاب کی شرط لگانا درست نہیں ہے(فتاویٰ اہلِ حدیث)۔
اسلئے ہر صاحبِ استطاعت(گنجائش ہونا۔Possessed of Competency) کو قربانی کرنی چاہئے ،صاحبِ نصاب (زکوۃ کا نصاب۔Possessed of Fixed Amount) ہونا ضروری نہیں ہے۔