ابو مطیع اللہ حنفی
چھوٹے بچوں کو سلام کرنے کی عادت ڈالیں۔ اسے بتائیں کہ بیٹے دوسروں کو دیکھو تو سلام کرتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں سے سلام کرنے کی عادت ڈالو‘ سلام کے الفاظ بچو کو سکھائیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ((اَفْشُوْ السَّلَامَ بَیْنَکُمْ)) تم سلام کو عام کرو ایک دوسرے کے درمیان رواج دو۔ تو ہمیں چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ بچے کو سلام کہنے کی عادت ڈالیں اس سے بچے کے دل سے جھجک دور ہو جاتی ہے اور وہ ڈیپریشن میں نہیں جاتا۔ دوسروں کو دیکھ کر خوفزدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کو سلام کر نے کی عادت ہوتی ہے تو ماں کو چاہئے کہ بچے کو سلام کہنے کا طریقہ سکھائے تاکہ بچے کے دل سے مخلوق کا ڈر دور ہو جائے اور بچے کے اندر جرأت آجائے بزدلی سے وہ بچ جائے اس طرح بچے کو شکریہ کی عادت بچپن سے سکھائیں
چھوٹی عمر کا ہے ذرا سمجھ بوجھ رکھنے والا ہو تو اس کو سمجھائیں کہ جب تم سے کوئی نیکی کرے بھلا کرے تمہارے کام میں تمہارا تعاون کرے تو بیٹا اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں چنانچہ اس کو شکریہ کی عادت بچپن سے ڈالیں۔ جب وہ انسانوں کا شکریہ ادا کرے گا تو پھر اس کو اللہ کا شکر ادا کرنے کا بھی سبق مل جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ((مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ)) جو انسانوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا تو یہ شکریہ کی عادت ہمیں ڈالنی چاہئے۔
عجیب بات ہے ہمیں اتنا زیادہ اس کا حکم دیا گیا مگر آج شائد ہی کوئی ماں ہو جو اپنے بیٹے کو شکریہ کے الفاظ سکھائے۔ {جزا کم اللہ جزاک اللہ خیرا یہ} الفاظ اپنے بچوں کو سکھائیں تاکہ بچے کو صحیح سنت کے مطابق شکریہ ادا کرنے کے الفاظ آتے ہوں آج یہ عمل ہمارا تھا لیکن غیر مسلموں نے اس کو اپنا لیا۔
بچے کو شکریہ سکھانے کا عجیب واقعہ
یہ عاجز ایک مرتبہ شائد 1997ء کی بات ہے۔ پیرس سے نیویارک کی طرف جارہا تھا۔ جہاز کے اندر جب ایک سیٹ پربیٹھا تو قدرتی بات ہے کہ میرے ساتھ والی سیٹ پر ایک فرانسیسی لڑکی آکر بیٹھ گئی۔ جس کے پاس اس کی تین چار سالہ بیٹی تھی اب تین ہی سیٹیں ہوتی ہیں ایک سیٹ پر ماں تھی ایک سیٹ پر اس کی بیٹی تھی اور ایک سیٹ پر یہ عاجز بیٹھا تھا۔ یہ عاجز کی عادت ہے کہ جہاز کے دوران کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی ہے۔ جس کو پڑھتے رہنے کی وجہ سے ادھر ادھر نگاہیں ہرگز نہیں اٹھتیں اور وقت اچھی طرح کٹ جاتا ہے اس لئے عاجز نے کتاب پڑھنا شروع کی تھوڑی دیر کے بعد ائیر ہوسٹس نے کہا کہ کھانا Serve کرنا ہے۔ عاجز نے تو معذرت کر لی کہ پیرس کا کھانا معلوم نہیں کیسا ہوگا۔ اس لئے سفر کے دوران یہ تو اپنا پکا ہوا کھانا ساتھ رکھتا ہے اگر نہ ہو تو پھر برداشت کر لیتا ہے۔ منزل پر پہنچ کر کھانا کھاتا ہے۔ معذرت کرلی مگر اس لڑکی نے تو کھانا لے لیا۔ اب جب کھانا اس نے لے لیا اپنی بیٹی کو کھلانے لگی اور خود بھی کھانے لگی کیونکہ ساتھ والی کرسی پر تو تھی تو انسان نہ بھی متوجہ ہو اسے اندازہ ہو ہی جاتا ہے کہ ہو کیا رہا ہے چنانچہ میں کتاب پڑھ رہا تھا۔ مگر مجھے اندازہ ہو رہا تھا اس کی حرکات سے کہ یہ کیا کر رہی ہے۔ اس نے اپنی بچی کے منہ میں ایک لقمہ ڈالا چاولوں کا توجب لقمہ بچی نے کھا لیا وہ کہنے لگی Thanksچنانچہ اس بچی نے کہا Thanks پھر دوسرا لقمہ ڈالا پھر Thanks کہلوایا۔ ہر لقمہ ڈالنے کے بعد وہ ماں اپنی بچی سے Thanks کا لفظ کہلواتی میرے اندازے کے مطابق اس فرانسیسی لڑکی نے اس کھانے کے دوران 36مرتبہ Thanks کہلوایا اس طرح شکریہ کی عادت واقعی بچی کی گھٹی میں پڑ جائے گی۔ اور یہ ساری عمر شکریہ ادا کرنے والی بن جائے گی تو یہ عمل تومسلمانوں کا تھا۔ مسلمان بیٹیوں نے بھلا دیا اور کافروں کی بیٹیوں نے اسے اپنا لیا۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ ہم بچپن سے ہی بچے کو یہ عادات سکھائیں۔ سلام کرنے کی عادت ڈالیں شکریہ کرنے کی عادت ڈالیں۔ جب ماں نے بچے کو شکریہ کی عادت نہیں ڈالی ہوتی بڑا ہو کر یہ بچہ نہ باپ کا شکریہ ادا کرتا ہے‘ نہ بہن کا شکریہ ادا کرتا ہے نہ والدین کا شکریہ ادا کرتا ہے اور کئی تو ایسے منحوس ہوتے ہیں کہ خدا کا شکریہ بھی ادا نہیں کرتے۔ نا شکرے بن جاتے ہیں۔ یہ غلطی کس کی تھی ماں نے ابتداء سے یہ عادت ڈالی ہی نہیں تھی اس لئے جب بھی بچے کو کوئی چیز دیں بچے کو کوئی چیز کھلائیں اس کے کپڑے پہنائیں۔ کپڑے بدلوائیں کوئی بھی بچے کا کام کریں تو بچے کو کہیں کہ بیٹا مجھے جزاک اللہ کہو۔ تو پھر بچہ جب آپ کو جزاک اللہ کہے گا تو پتہ ہوگا کہ میں نے شکریہ ادا کرنا ہے یہ ایک عادت اچھی ہوگی جو بچے کے اندر پختہ ہو جائے گی۔
تالیف⇦:- محمد ریاض جمیل
✍ترتیب اقساط⇦:ابو مطیع اللہ حنفی