خواتین کے ایک سرکاری کالج میں انگلش کا پیریڈ تھاکہ ایک طالبہ زور زور سے رونے لگی ٹیچر نے پڑھانا چھوڑا، جلدی سے اُس کے پاس جا پہنچی بڑی نرمی سے دریافت کیا،
” کیا بات ہے بیٹی کیوں رورہی ہو؟”
اس نے سسکیاں لے کر جواب دیا،
“میرے فیس کے پیسے چوری ہوگئے ہیں بیگ میں رکھے تھے کسی نے نکال لئے ہیں” ،
ٹیچر نے ایک لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کمرے کے دروازے بند کردو کوئی باہر نہ جائے سب کی تلاشی ہوگی ٹیچر نے سامنے کی تین رو سے طالبات کی خود تلاشی لی اور پھر انہیں پوری کلاس کی طالبات کی جیبیں چیک کرنے اور بستوں کی تلاشی کی ہدایت کردی۔۔
کچھ دیر بعد دو لڑکیوں کی تکرار سے اچانک کلاس ایک بار پھر شور سے گونج اٹھی ٹیچر اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی ۔،
“کیا بات ہے؟ کیوں جھگڑا ہو رہا ہے ؟ ”
” مس ” تلاشی لینے والی طالبہ بولی ،” کوثر اپنے بیگ کی تلاشی نہیں لینے دے رہی!”
ٹیچر وہیں تڑک سے بولی ، ” پیسے پھر اسی نے چرائے ہوں گے!”
کوثر تڑپ کر بولی، ” نہیں۔۔ نہیں ۔ ۔ ۔ مس میں چور نہیں ہوں!”
”چور۔۔۔نہیں ہو تو پھربیگ کی تلاشی لینے دو” طالبہ بولی ،
”نہیں” کوثر نے کتابوں کے بیگ کو سختی سے اپنے سینے کے ساتھ لگالیا “نہیں میں تلاشی نہیں دوں گی”
ٹیچر آگے بڑھی اس نے کوثر سے بیگ چھیننے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی ۔اسے غصہ آگیا ٹیچر نے کوثر کے منہ پر تھپڑ دے مارا وہ زور زور سے رونے لگی ۔
ٹیچر نے دوسرا تھپڑ کوثر کو مارنے کے لئے کے لئے ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ ایک بارعب آواز گونجی ، ” ٹہرو ”
ٹیچر نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ پرنسپل تھی نہ جانے کب کسی نے انہیں خبرکردی تھی۔۔۔
انہوں نے کوثراورٹیچرکو اپنے دفتر میں آنے کی ہدایت کی اور واپس لوٹ گئیں ۔۔۔
پرنسپل نے پوچھا، “اب بتایئے کیا معاملہ ہے”
ٹیچرنے تمام ماجراکہہ سنایا۔۔۔
پرنسپل نے طالبہ سے بڑی نرمی سے پوچھا ”تم نے پیسے چرائے؟۔”
”نہیں” کوثر نے نفی میں سرہلا دیا۔۔۔
کوثر کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے
”بالفرض مان بھی لیا جائے۔۔۔” پرنسپل متانت سے بولیں “جب تمام طالبات اپنی اپنی تلاشی دے رہی تھیں تم نے انکار کیوں کیا؟”
کوثر خاموشی سے میڈم کو تکنے لگی ۔۔ اس کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے چہرے پر پھیل گئے۔۔
ٹیچر نے کچھ کہنا چاہا، جہاندیدہ پرنسپل نے ہاتھ اٹھا کر اسے روک دیا پرنسپل کا دل طالبہ کا چہرہ دیکھ کر اسے چور ماننے پر آمادہ نہ تھا پھر اس نے تلاشی دینے کے بجائے تماشا بننا گوارا کیوں کیا۔۔۔
اس میں کیا راز ہے ؟پرنسپل سوچنے لگی۔۔
اور پھر کچھ سوچ کر پرنسپل نے ٹیچر کو کلاس میں جانے کا کہہ دیا!
پرنسپل نے بڑی محبت سے کوثر کو اپنے سامنے والی نشست پر بٹھا کر پھر بولی ، : اپنا بیگ مجھے دو !”
کوثر نے خاموشی سے اپنا بیگ ان کے حوالے کر دیا ، یہ ہاتھ سے بنا ہوا سادہ سا بیگ تھا ، جس پر کچھ سٹکر بھی لگے ہوئے تھے ، پرنسپل نے کوثر کی طرف ایک نظر دیکھا اور بیگ کھول کر ، بیگ کی چیزیں میز پر نکال کر رکھنا شروع کیں ، کتابوں اور کاپیوں کے ساتھ ، ایک کالے رنگ کا شاپر بیگ بھی باہر نکل آیا۔ باقی بیگ میں کچھ نہیں تھا ۔
پرنسپل نے سوالیہ نظروں سے کوثر کی طرف دیکھا ،
کوثر کو یوں لگا جیسے اس کا دل سینے سے باہر نکل آیا ہو۔ اُس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ پرنسپل نے شاپر کھولا اس میں آدھےکھائے ہوئے برگر کے ٹکڑے ، آدھے سموسے، چوتھائی نان اور دہی کی چٹنی میں ڈوبی چکن کی بوٹیاں۔۔۔
سارا معاملہ پرنسپل کی سمجھ میں آ گیا ، اُس کی آنکھیں دھندھلا گئیں وہ کانپتے وجود کے ساتھ اٹھی روتی ہوئی کوثر کو گلے لگا کر خود بھی رونے لگ گئی۔
کوثر نے پرنسپل کو بتایا ، ” میں گھر میں سب سے بڑی ہوں ، 3 بہن بھائی مجھ سے چھوٹے ہیں ،والد صاحب نائب قاصد ریٹائر ہوئے ہیں ، لیکن ریٹائرڈمنٹ سے پہلے ہی بیمار رہنے لگے تھے ، اب تو بستر پر لگ گئے ہیں ۔گھر میں کوئی اور کفیل نہیں ہے پنشن سے گذارا نہیں ہوتا ، امی پاس کے دو گھروں میں کام کرتی ہیں ، کھانا اتنا نہیں ہوتا کہ روزانہ پیٹ بھر کر کھایا جائے ، ہم اکثر بھوکے سوتے تھے
۔ ایک شام میں نے اور امی نے کچھ نہیں کھا یا ، میں صبح کھائے بغیر کالج آرہی تھی بھوک اور نقاہت سے چلنا مشکل ہوگیا۔ ایک تکہ کباب کی د کان کے آگے سے گذری تو کچرے میں کچھ نان کے ٹکڑے اور ادھ کھایا ایک چکن پیس پڑا دیکھا بے اختیار اٹھاکرکھا لیا قریبی نل سے پانی پی کر خداکر شکر ادا کیا۔۔۔
پھر ایسا کئی مرتبہ ہوا ایک دن میں اُسی دکان کے تھڑے پر بیٹھی پیٹ کا دوزخ بھررہی تھی کہ دکان کا مالک آگیا اس نے مجھے دیکھا تو ندیدوں کی طرح نان اور کباب کے ٹکڑے کھاتا دیکھ کر حیران ہو گیا ، پھر ساری بات اس کی سمجھ میں آگئی ،واپس گیا اور رات کا بچا ہوا کھانا پیک کر کے لا کردیا ، وہ میں بیگ میں ڈال کر سکول لے آئی ، وہ ایک نیک اور ہمدرد انسان ثابت ہوا میں نے اسے اپنے حالات سچ سچ بتا دئیے اسے بہت ترس آیا، اب وہ اکثر ہمارے گھر کھانا بھی بھیج دیتا ہے اور گاہکوں کا بچا ہوا کھانا ،برگر وغیرہ روزانہ شاپر میں ڈال میرے لئے ، اپنی دکان کے باہر ایک مخصوص جگہ پررکھ دیتا ہے۔
جو میں کالج آتے ہوئے اٹھا کر کتابوں کے بیگ میں رکھ لیتی ہوں ، کچھ کھاتی ہوں اور باقی جاتے ہوئے گھر لے جاتی ہوں میرے امی ابو کو علم ہے میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھاتے وقت ان کی آنکھوں میں آنسو ہوتے ہیں بہن بھائی چھوٹے ہیں انہیں کچھ علم نہیں وہ تو ایک دوسرے سے چھین کر بھی کھا جاتے ہیں”
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ چھوٹی سی کہانی ، جسے پہلے میں نے کسی قلم کار کا ہنر سمجھا تھا ، لیکن چند دن پہلے میں نے وزارت داخلہ کے چپڑاسی کے بارے میں ٹی وی نیوز میں سنا ، جس نے اپنے گھر والوں کو فاقے سے بچانے کے لئے ، چھت سے کود کر اِس امید پر خود کشی کرلی کہ شائد سروس کے دوران مرنے والے ملازم کی اولاد کو وہی نوکری مل جاتی ہے ، اُس خبر نے بھی مجھے غمزدہ کیا لیکن اِس کہانی نے تو رُلا دیا ، مجھے نہیں معلوم کہ آپ کے دل پر اِس کہانی نے کیا اثر کیا ؟لیکن ایک درخواست ہے ، کہ
خدا کے واسطے رحم کرو۔۔۔
غریبوں سے ہمدردی کرو ۔۔۔
جو اُس دانے کے محتاج ہیں جو ہم ، ڈسٹ بِن میں ڈال دیتے ہیں ۔
ہم کتنے افراد کا رزق جو اللہ نے اُن کے لئے پیدا کیا ، پیسے کے بل پر ذخیرہ کرکے اور کھانے کی صورت میں ضائع کر دیتے ہیں،
پھر سوچتے ہیں کہ اگر اللہ نے ہر جاندار کے رزق کی ذمہ داری اپنے اوپر فرض کی ہے تو لوگ بھوکے کیوں مرتے ہیں ؟
اٗن لوگوں کی بھوک کا ذمہ دار میں ہوں ، آپ ہیں اور ہم سب ہیں ۔
یقینا ہم میں سے کسی نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ ہم روزانہ کتنا کھانا ضائع کرتے ہیں !