ایک بزرگ جو مراقبہ کے زریعے لوگوں کے مسائل کی تشخیص اور علاج کرتے تھے, ان کے پاس ایک صاحب آۓ جن کو یہ تکلیف تھی کہ 2 دن سے وہ اپنی پلکیں نہیں جھپکا پا رہے تھے, نہ سو سکتے تھے نہ رو سکتے تھے, تکلیف کی شدت ازیت بن گئی تھی. ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا مسلہ ہے. سب ہاتھ کھڑے کر چکے تھے. اس لیے وہ ان بزرگ کے پاس حاضر ہوے تھے اپنے مسلے کے حل کے لیے اور دعا کروانے کے لیے.
بزرگ نے مراقبہ کیا مگر ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا. کافی کوشش کے بعد بھی کچھ سامنے نہ آیا تو مریض کو اگلے دن آنے کا کہا اور اس کا نام اور مسلہ اپنے پاس لکھ لیا.
عصر کے بعد پھر ان صاحب کے مسلے پر بزریعہ مراقبہ غور کیا لیکن سواۓ دھندلے اور نا مکمل تصویری خاکوں کے کچھ سمجھ نہ آیا.
ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ کسی کے متعلق کوئ راہنمائ نہ ملے. ضرور کوئ خاص بات تھی. آپ ذکر اذکار میں مصروف ہو گئے اور اللہ سے خصوصی دعا کہ یہ معاملہ سلجھا دیں.
عشاء کے بعد پھر مراقبہ میں گئے تو دیکھا ایک طرف کچھ ہندو بیٹھے ہیں, دوسری طرف مسلمان. ان مسلمانوں میں وہ شخص بھی بیٹھا نظر آیا جو پلکیں نہیں جھپکا پا رہا تھا. مسلمان اور ہندو دونوں مزاہب کے لوگ اپنے اپنے طریقے سے روزہ افطار کرنے کے لیے بیٹھے تھے.
اس شخص نے اپنے ساتھ بیٹھے فرد سے کچھ کہا جس پر انتظامیہ نے اس شخص کو سزا کے طور پر اٹھایا اور ہندوؤں کے پاس جانے کو کہا. اس کے ساتھ ہی بزرگ کا مراقبہ ختم ہو گیا. کافی دیر غور کرنے کے بعد بات کچھ کچھ سمجھ آنے لگی تھی. اسی بات پر غور کرتے کرتے وہ بزرگ نیند کی أغوش میں چلے گئے.
اگلے دن ضرورت مندوں میں وہ شخص بھی شامل تھا. اپنی باری آنے پر وہ شخص سامنے آ کر بیٹھا تو اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی آی تھی. بزرگ نے خیریت دریافت کرنے کے بعد پوچھا کہ رمضان کے روزے کیسے گزرے آپ کے?
“ہمیشہ کی طرح اچھے گزرے اس دفعہ بھی”. اس نے جواب دیا.
ہندوؤں کے روزوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے?
” میں کچھ سمجھا نہیں” اس نے حیرانی کا اظہار کیا.
لیکن اس کی بیوی کی آنکھیں کسی خیال سے روشن ہو گئیں. شاید اسے بات کچھ سمجھ آ رہی تھی. وہ گویا ہوی
“ایک دن روزوں پر بات ہو رہی تھی تو انہوں نے مذاق میں ایک بات کہی تھی کہ ” ہم سے اچھے تو ہندوؤں کے روزے ہیں, وہ پھل کھا سکتے ہیں روزے میں”.
بزرگ نے اس شخص کی طرف دیکھا تو اس کا سر جھکا ہوا تھا, اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا.غلطی کا خیال آتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وہ اپنے رب سے گڑگڑا کر معافی مانگنے لگا. کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ اب وہ اپنی پلکیں بھی جھپکا رہا ہے.
بزرگ گویا ہوے “دیکھو بیٹا, اکثر ہماری پکڑ ہماری زبان کی وجہ سے ہو جاتی ہے, مذاق مذاق میں کی گئی باتیں کب اللہ کی ناراضی کا سبب بن جائیں ہم نہیں جانتے. ہماری ایسی ہی بے تکلفی میں کی گئی باتیں ہماری پکڑ کی وجہ بن جاتی ہیں.
یہ پکڑ کسی کی جسمانی تکلیف کی صورت میں سامنے آتی ہے اور کسی کے لیے زہنی تکلیف کی صورت میں. کسی کو دلی سکون حاصل نہیں تو کسی کی راتوں کی نیند غائب ہو جاتی ہے. کسی کے رزق سے برکت ختم ہو جاتی ہے تو کسی کے رشتوں میں اختلافات آ جاتے ہیں.
اسلام کی ایک ایک بات اللہ کی مصلحت اور معرفت سے لبریز ہے. اور اللہ کا بتایا ہوا ہر اصول اور حکم قائنات کا بہترین عمل اور اصول ہے. ہم مذاق میں یا بے دیہانی میں کچھ کہہ کر اللہ کے بناۓ ہوے اس اصول کی بےادبی اور گستاخی کے مرتکب ہو جاتے ہیں.
جیسے :
کسی کے لیے فجر کے لیے اٹھنا مشکل ہے تو سوچے سمجھے بغیر کہہ دیا کہ ” یہ فجر کی نماز ضروری تھی کیا” استغفر اللہ
کسی لڑکی نے کہہ دیا کہ جو بھی ہو جاۓ میں کسی داڑھی والے سے شادی نہیں کروں گی.
اسی طرح کے کچھ مزید فقرے جوعام طور پر ہمارے مسلمان بھائی بہن بول ڈالتے ہیں۔ جن سے ان کی پکڑ ہو جاتی ہے اور ان کو خبر بھی نہیں ہوتی۔
1۔ جیسے کوئی مصیبت کے وقت کہے۔” اللہ نے پتہ نہیں مصیبتوں کے لئے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا ہے”
2۔ یا موت کے وقت کوئی کہہ دے۔”پتہ نہیں اللہ کو اس شخص کی بڑی ضرورت تھی جو اس کواپنے پاس اتنی کم عمر میں بلا لیا”۔
3۔ یا کہا ۔ نیک لوگوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ جلدی اٹھا لیتا ہے کیوں کہ ایسوں کی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو بھی ضَرورت پڑتی ہے
4۔ یااللہ ! تجھے بچّوں پر بھی نہیں آیا۔
5۔ االلہ ! ہم نے تیرا کیابِگاڑا ہے! آخِر ملکُ الموت کوہمارے ہی گھر والوں کے پیچھے کیوں لگا دیا ہے
6۔ اچّھا ہے جہنَّم میں جائیں گے کہفلمی اداکار ئیں بھی تو وہیں ہوں گی نہ مزہ آجائے گا۔
7۔ اکثر لوگ فیس بک پر اس طرح کے لطائف لکھ ڈالتے ہیں۔ یہ بھی کفر ہے۔ جیسے اگر تم لوگ جنّت میں چلے بھی گئے تو سگریٹ جلانے کیلئے تو ہمارے ہی پاس (یعنی دوزخ میں)آنا پڑے گا
8۔ آؤ ظہر کی نماز پڑھیں ، دوسرےنے مذاق میں جواب دیا :یا ر ! آج تو چُھٹّی کا دن ہے ، نَماز کی بھی چُھٹّی ہے ۔
9۔ کسی نے مذاق میں کہا:”بس جی چاہتا ہے یہودی یا عیسائی یا قادیانی بن جاؤں۔ ویزہ تو جلدی مل جاتا ہے نا۔
10۔ صبح صبح دعا مانگ لیا کرو اس وقت اللہ فارِغ ہوتا ہے
11۔ اتنی نیکیاں نہ کرو کہ خُدا کی جزا کم پڑجائے
12۔ خُدا نے تمہارے بال بڑی فرصت سے بنائے ہیں
13۔ ایک نے کہا:یار!ہوسکتا ہے آج بارش ہوجائے۔ دوسرے نے کہا:”نہیں یار ! اللہ تو ہمیں بھول گیا ہے۔
14 دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی؟ تو نے کاہے کو دنیا بنائی؟ (گانا)
15۔ حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے ۔ خدا بھی نہ جانے تو ہم کیسے جانے (گانا)
16۔ میری نگاہ میں کیا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ قسم خدا کی ‘ خدا بن کے آپ رہتے ہیں ۔ (گانا) اس طرح کے بے شمار گانے جو ہمارے مسلما ن اکثر گنگناتے دیکھائی دیتے ہیں۔
17۔ نَماز کی دعوت دینے پر کسی نے کہا:”ہم نے کون سے گُناہ کئے ہیں جن کو بخْشوانے کیلئے نَماز پڑھیں۔
18۔ایک نے طبیعت پوچھی تو دوسرے نے مذاق کرتے ہوئے جواب دیا: نصْرمِّنَ اللہِ وَ ٹِّھیک ۔ کہہ دیا ۔کہنے والے پر حکم کفر ہے کہ آیتکو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔
19۔ رَحمٰن کے گھر شیطان اور شیطان کے گھر رَحمٰن پیدا ہوتا ہے۔
20۔مسلمان بن کر امتحان میں پڑ گیا ہوں۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔
اللہ پاک ہمیں زبان کی حفاظت اور اس کے صحیح استعمال کی توفیق عطا فرماۓ. آمین
پیغام و فکر : سید آصف حسین