پچھلے دسمبر ایک روز جب انگلینڈ میں شدید برف باری ہو رہی تھی اور ہر کسی کو سردی نے جکڑ رکھا تھا تو میں نے اپنی آفس کی کھڑکی سے دیکھا کہ میرا ایک ساتھی اس منجمد کردینے والی ہوا میں باہر دستانے چڑھائے اور ہاتھ میں بیلچہ تھامے راستے سے لوگوں کیلئے برف کے انبار صاف کررہا ہے. میں حیرت سے ٹھٹھرتا ہوا اسے دیکھتا رہا، کچھ دیر بعد جب اس سے ملاقات ہوئی تو پوچھا کہ تم تو میری طرح انجینئر ہو پھر تمہارے ذمہ اس سردی میں یہ سخت کام کس نے لگادیا؟. اس نے مسکرا کر جواب دیا کہ “یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے”.
.
چند روز پہلے آفس کے کچن میں رکھا ڈش واشر خراب ہوگیا. نتیجہ یہ ہوا کہ صفائی کرنے والو کیلئے برتنوں کے انبار لگنے لگے. دن کے اختتام پر کام ختم کرکے جب میں گھر جانے لگا تو دیکھا کہ ایک سینئر مینجر آستینیں چڑھائے سارے برتن مانجھ مانجھ کر دھو رہا ہے. میری استفسار کرتی نظروں کو دیکھا تو مسکرا کر مخاطب ہوا کہ “یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے”.
.
ایسے ہی ان گنت مشاہدوں سے مجھے یہ سمجھ آنے لگا کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ میں دو رکعت نماز زیادہ پڑھ لوں یا چندے کے ڈبے میں چند روپے ڈال آؤں بلکہ برتر نیکی یہ ہے کہ ایسے مواقع تلاش کروں جہاں مخلوق کے خاموشی سے کام آسکوں، کسی کی اذیت کم کرسکوں. کچھ روز پہلے ہمارے فلیٹس کی لفٹ خراب ہوگئی، جس کے بغیر کچرا نیچے لے جانا محال تھا. گھر کا کچرا پھینکنے کے لئے نکلا تو دیکھا کہ ایک پڑوسی خاتون نے بھی اپنا بہت سا کچرا باہر رکھ رکھا ہے. میں نے اس کا کچرا بھی ساتھ اٹھا لیا. پھر اس خیال سے کہ کچرے والے کو مشکل نہ ہو، ان کچرے کے بڑے بڑے بستوں کو گرہ لگا کر باندھ دیا. ظاہر ہے کہ اس سے میرے ہاتھ خراب ہوگئے. ساتھ چلتی ہوئی ایک کم عمر بچی نے حیرت سے میری طرف دیکھا تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا “یہ میری آج کی چھوٹی سی نیکی ہے”.
.
====عظیم نامہ==
Azeem Ur Rehman Usmani