آپ_بیتی_جگ_بیتی
تحریر: #ڈاکٹر_نسیم_جاوید_سیّد
زکٰوۃ کی کٹوتی کی وجہ سے بنک بند تھا۔ وہ برساتی کو ایڈجسٹ کر کے بل جمع کرائے بغیر واپس آگیا۔ بنک قریب ہی تھا۔
اسلام آباد میں بارش کی بوندیں ابھی گر رہی تھی۔
گلی کے کونے پر پہنچ کر وہ ٹھٹک گیا۔ اس بزرگ کو اس نے گزشتہ روز بھی ایک ٹوٹی پھوٹی میز پر کچھ سبزی اور چند قسم کےفروٹ فروخت کے لیئے سجائے دیکھا تھا اور دوبارہ دیکھے بغیر گاڑی گلی میں گھر کی طرف موڑ لی تھی۔
آج وہ پیدل تھا۔ اس کے ٹھٹکنے کی وجہ دس بارہ سال کا ایک بچہ اور پاس کھڑی اس کی ماں تھی۔
بارش سے بے نیاز. کسی گاہک کی آس میں ان کی نظروں میں آس ویاس کا ملا جُلا تاثر تھا۔
وہ کچھ لینا نہیں چاہ رہا تھا۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے دو روز پہلے ہی منڈی سے کافی کچھ لے آیا تھا۔ مزید لینے کا مطلب پیسے اور چیزوں کا ضیاع ہوتا۔
نماز کے بعد تلاوت کرنے بیٹھا تو بار بار ان بھیگتے ہوئے ماں بیٹے کا تصور اسے بےچین کرنے لگا۔
جب وہ ایک آیت تک پہنچا کہ (،،ترجمہ) “پھر تم سےسوال کیا جائے گا کہ تم سونا چاندی بچا بچا کر اکٹھا کرتے رہے۔ اللّٰه کی راہ میں کیوں نہیں خرچ کیا؟
تو آج تھاری پیشانیاں، اور کاندھے اور کمریں اسی پگھلے ہوئے گرم سونے اور چاندی سے داغی جائیں گی۔”
تو دل سے آواز ابھرنے لگی۔
کیا فائدہ اس عبادت کا؟
جب تم غربت میں پستے ہوئے دو مجبور انسانوں کی مجبوری دیکھ کر بھی نہیں پگھل سکے۔
نماز اور تلاوت تو اللّٰه کا معاملہ ہے۔ وہ قبول کرے یا نہ کرے، اس کی مرضی۔ لیکن کیا اس بے حسی پر تمھیں معافی مل جائے گی؟
سارا دن فیسبک پر بیٹھ کر انسانیت کے لیکچر دیتے ہو۔
ہمدردی کی پوسٹیں لگاتے ہو۔
لیکن خود تم سے بڑا خود غرض کوئی ہو سکتا ہے؟
اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا۔
اس نے مصحف کو ادب سے بند کیا اور اٹھ کر برساتی پہننے لگا۔
“کہاں جا رھے ہیں؟ “
بیوی نے پریشان ہوکر پوچھا۔
وہ آئسولیشن کے معاملے میں بہت سخت تھی۔ بچوں کو بھی نہیں نکلنے دیتی تھی۔
بہت ضروری طور پر نکلنا ہوتا تو ماسک، سینیٹائزر، ڈسپوزایبل دستانے، سب کی پابندی کرنا ہوتی۔
“کہیں نہیں بس گلی کے کونے تک”۔
وہ پرس جیب میں رکھتے ہوئے بولا. پھر پوری بات بتائی۔
اس کی آواز بھرا گئی۔
“کون آئے گا اس پوش علاقے میں، بارش میں ان سے سبزی یا فروٹ خریدنے۔؟
وہ گداگر نہیں ہیں، محنت کش ہیں ورنہ بارش میں نہ بھیگ رھے ہوتے۔”
“ٹھہریں، آپ ایک نیک مقصد کے لیئے جا رہے ہیں ۔
میرا شئیر بھی شامل کرلیں۔”
جبھی کمرے سے بیٹے کی آواز آئی جو یہ سب سُن رہا تھا۔
“پاپا! میری طرف سے بھی ۔”
اس نے باپ کی طرف کچھ پیسے بڑھا دیئے۔
اس سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ بس آنسو نکل رہے تھے۔
وہ دعا مانگ رہا تھا کہ وہ لوگ چلے نہ گئے ہوں۔
وہ باہر نکل آیا، بارش کے بس اکا دکا قطرے ہی گر رہے تھے ۔
گلی کے کونے پر ماں بیٹا اسی طرح پھلوں اور سبزی کی میز کے آگے بھیگے ہوئے کھڑے تھے۔
کوئی گاہک دور دور تک نہیں تھا۔
پاس جاکر وہ بچے سے ہر چیز کا بھاؤ پوچھنے لگ گیا۔
جبھی وہ بزرگ بھی کہیں سے آپہنچا۔
“بھائی! ان سب فروٹس اور سبزی کا کیا لگاؤ گے؟ “اس نے پوچھا۔
“تول دوں صاحب؟”
وہ خوش ہوگیا تھا۔
عورت بھی اپنے میاں کے قریب آگئی تھی اور حیرت سے دیکھ رہی تھی۔
“نہیں نہیں ایسے ہی بتا دو حساب کر کے، اپنا منافع بھی شامل کر لو۔ مجھے سارا سامان لینا ھے۔
منڈی نہیں جا سکتا، کرونا جو پھیلا ہوا ھے۔”
وہ آدمی تھوڑی دیر حساب لگا تا رہا پھر بولا۔”سر! ۔۔۔۔۔۔۔ایک ہزار بنتے ہیں۔”
“کوئی رعایت نہیں کرو گے؟” اس نے ٹٹولا۔
“آپ دوسرے گاہک ہیں صبح سے۔ پہلا گاہک ایک خربوزہ لے کر گیا تھا، ایسا کریں دوسو کم دے دیں۔ میرا بھی وقت بچ جائے گا۔”
اس نے پرس سے نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھا دیئے۔
“ٹھیک ہے، جتنے تم نے پہلے کہے ہیں اتنے میں ہی دے دو۔”
“شاپر میں ڈال دوں؟ الگ الگ۔؟”
“نہیں، انھیں ادھر ہی رہنے دو۔
اب یہ سامان میرا ہوا، چاہو تو غریبوں کو دے دینا،
اور چاہو تو بیچ دینا ۔
میری طرف سے اجازت ھے۔”
اس کی بیوی بولی۔”بھائی! کچھ تو لے جائیں۔”
اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ “میرا سودا اللّه سے ہو گیا ھے۔
اب اس میں سے میں کچھ نہیں لے سکتا۔”
وہ تیزی سے مڑا، آنسو اس کی آنکھوں سے تیزی سے بہے جا رہے تھے. یہ بیک وقت ندامت، خوف اور شکرانے کے آنسو تھے۔
گھر پہنچتے پہنچتے وہ منہ پر ہاتھ رکھے دھاڑیں مار کر رونے لگا۔
“مجھے معاف کر دے میرے مالک! میری کسی غلطی پر پکڑ نہ کرنا۔ مجھے تو نے سب کچھ دیا ھے،
اتنا کہ ساری زندگی شکر کرتا رہوں تو لفظ ختم ہوجائیں۔
اور ایک طرف تیری یہ مخلوق ھے۔ ان کے حال پر رحم کر میرے اللّه! انھیں بخش دے۔
وہ منہ پر ہاتھ رکھے چیخوں کا گلا گھونٹتا رہا ۔
اندر داخل ہوا تو بیوی تین برساتیاں لیئے کھڑی تھی۔
اس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگا دیکھ کر بیوی کی آنکھیں بھی بھر آئی تھیں ۔
“یہ انھیں دے آئیں، ہمیں تو ویسے بھی ابھی ضرورت نہیں ہے۔
کرونا ختم ہوگا تو اور لے آئینگے۔”
وہ واپس گیا اور برساتیاں بھی انھیں دے دیں۔
پہلی بار اسے اپنی روح اور دل سے بوجھ اترتا محسوس ہوا تھا اور وہ اللّٰه سے معافی مانگ کر خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگا۔
#قارئین!
یہ تحریر لکھتے ہوئے اس وقت بھی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں،
یہ سب زیادہ دور کا نہیں،
گزشتہ روز یعنی تیسرے روزے کا ذکر ھے۔
اس آپ بیتی، جگ بیتی کا ہر لفظ غور سے پڑھیئے گا۔
یہ تحریر پڑھ کر چند افراد بھی اسی راہ پر چل پڑے تو مجھے یقین ہے کہ وہ غفور الرحیم اس بہانے میری بخشش ضرور کر دے گا۔
#منقول