عام آدمی سے لے کر ملینیر و بلینئیر تک تقریباً سب ہی کو کچھ کھونے خصوصاََ رشتوں کے دور ہو جانے کا احساس بھی ہے اور شاید دکھ بھی، لیکن ترقی اور ہائی اسٹینڈرڈ آف لائف اسٹائل کے مقابلے میں یہ کھونا دراصل وہ گھاٹا یا نقصان تصور ہی نہیں کیا جا رہا جسکی فکر اور پرواہ کی جائے, جسے برقرار رکھنے یا دوبارہ حاصل کرنے اور استوار کر لینے کوشش کی جائے بلکہ یہ کھونا محض ‘کچھ پانے کے لئے کچھ ہونا’ ہوکر رہ گیا ہے۔۔۔ یعنی رشتے ناتے اور اپنے جیسے انسانوں کی معیت و رفاقت اور ساتھ کھو کر آزادی، ترقی اور مال و دولت کا حصول گھاٹے کا سودا نہیں ہے بلکہ محض ایک غیر اہم یا نہ سلجھنے والا معمہ ہے۔ جسے سرسری یا ہنسی مذاق میں بیان کردینا ہی کافی ہے۔ اسکے لئے عملاً کچھ نہیں کیا جاسکتا یا نہیں کیا جانا چاہئے۔
درحقیقت لوگ نہیں سمجھ پا رہے کہ یہ رویہ، یہ سوچ، یہ طرزِ فکر و اندازِ زندگی، انسانیت کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ یا المیہ ہے جو جدید مغربی زندگی کا تحفہ ہے۔ جسکے نتیجے میں معاشرہ خود غرض، لالچی، انا پرست اور بالآخر ذہنی مریض بنتا جارہا ہے۔ اپنی ذات ego satisfaction کے سوا اسے کسی دوسرے کی کوئی پرواہ یا حاجت نہیں رہی ہے۔ محض ایک خواہش پرست اور جنس زدہ جوان مردو عورت کا سماج، جہاں بچے، بوڑھے اور معذور افراد differently able عضوِ معطل بن کر رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کے ڈے کیئر سینٹرز ہیں تو بوڑھوں کے لئے اولڈ ہومز اور disables کے مراکز بنادئیے گئے ہیں انکا خاندان اور روز مرہ زندگی سے تعلق ٹوٹ گیا ہے۔ روایتی معاشروں کی بڑی بوڑھیاں اور بزرگ اب محض ماضی کا ورثہ یا یادگار بنتے جارہے ہیں جنکا گھر اور گھر والوں سے کوئی براہِ راست سمبندھ relationship نہ رہا ہے۔
معالجین و ماہرین کے مطابق 50 سے 80 فیصد تک جسمانی بیماریوں physical illnesses کی وجہ ذہنی دباؤ stress ہوتا ہے جبکہ نفسیاتی بیماریوں mental diseases or psychosis کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی مسلسل مینٹل اسٹریس ہی ہے۔ مغرب میں 40 تا 45 فیصد لوگ روز مرہ کے مختلف اسٹریسسز سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے، ذہنی دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لئے نشہ آور اشیاء مثلاً الکوحل و شراب یا دیگر منشیات نیز سکون و خواب آور ادویات tranquillizers کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ ترقی progress کی قیمت ہے جو آج کا انسان چکا رہا ہے۔ ترقی، ترقی اور ترقی کی لامحدود جدوجہد اور سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد سے انتہاؤں کو چھو جانے کا اسکا نہ رکنے والا تجسّس و زعم اسے انسانیت کی سطح سے بھی گرا دے گا اسکی تباہی کا سبب بن جائے گا۔
یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ روایتی یا مذہبی معاشروں میں اس قدر جسمانی عوارض نہ تھے اور ذہنی یا نفسیاتی مسائل تو نہ ہونے کے برابر تھے۔ عرب معاشروں میں فرد کا خدا سے تعلق استوار ہونے کیوجہ سے وہاں اب بھی ذہنی امراض کا تناسب مغربی اور مغرب زدہ تیسری دنیا کے ممالک کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں نفسیاتی یا psychological rehabilitation centers بہت کم ہیں۔