اپنی پہلی جاب شروع کرنے کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد میں نے اپنی تنخواہ سے اپنے ایک دوست کی پانچ سال پرانی آٹھ سو سی سی گاڑی خریدی جسے تقریباً ڈیڑھ سال استعمال کے بعد بیچ دیا کیونکہ کمپنی کی طرف سے اس سے بہتر زیرو میٹر گاڑی مل گئی تھی۔
مزنگ چونگی چوک سے سے جیل روڈ کی طرف جائیں تو کم و بیش ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے تک اطراف میں گاڑیوں کے شوروم ملیں گے۔ اپنی گاڑی بیچنے کیلئے میں اسی مارکیٹ میں آیا جہاں سڑک پر کھڑے کمیشن ایجنٹوں نے میرا استقبال کیا۔ ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے گاڑی ٹھوک بجا کر دیکھتا اور پھر مجھ سے ڈیمانڈ پوچھتا۔ ظاہر سی بات ہے کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری گاڑی کی کیا ویلیو ہوگی، میں کوئی ایسی ڈیمانڈ نہیں کرنا چاہتا تھا جو اس کی مارکیٹ ویلیو سے کم ہوتی، جس کا مجھے نقصان ہوتا – اور نہ ہی کوئی ایسی ڈیمانڈ کرنا چاہتا تھا جو مارکیٹ ویلیو سے زیادہ ہوتی، اور پھر میرے لئے بیچنا مشکل ہوجاتا۔ چنانچہ میں ایجنٹ سے اس کی آفر پوچھتا تو وہ بہت ہی کم قیمت بتا کر گفت و شنید کا آغاز کرنے کی کوشش کرتے۔
میں ایک ایک کرکے ایسے ایجنٹس کو معذرت کے ساتھ فارغ کرتا گیا، یہاں تک کہ ایک ایجنٹ ملا جس نے میری توجہ اپنی طرف مرکوز کرلی۔
اس ایجنٹ نے گاڑی کو ٹھوک بجا کر تو دیکھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مجھے بھی گائیڈ کرتا گیا کہ وہ دراصل کیا چیک کررہا تھا۔ آپ یقین مانِیں کہ اس نے مجھے ایسی چیزیں بتائیں جن کا اس سے پہلے مجھے کوئی علم نہ تھا کہ گاڑی خریدنے سے پہلے وہ بھی چیک کرنی چاہئیں۔
اس نے مجھے بتایا کہ فرنٹ بونٹ کی وہ دھار جو ونڈ سکرین کے پاس جا کر ختم ہوتی ہے، وہاں ہاتھ پھیر کر دیکھنا چاہیئے کہ وہ ملائم ہے یا کھردری۔ اگر گاڑی کا میجر ایکسیڈنٹ ہوا ہوگا تو لازمی بونٹ پینٹ ہوا ہوگا، اگر پینٹ ہوا ہوگا تو ونڈ سکرین کے پاس جو آخری حصے والی دھار ہوتی ہے، وہ لازمی کھردری ہوگی کیونکہ اسے ملائم صرف جینوئن پینٹ پراسیس ہی کرسکتا ہے، ورکشاپس میں ایسی سہولت نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اگر میں کسی مقناطیس یا محض اپنی انگلی سے گاڑی کے چاروں دروازوں کو ٹھوک بجا کر ان کی آواز چیک کروں تو جہاں کہیں بھی پینٹ ہوا ہوگا، اس کی آواز مختلف ہوگی۔
میں نے اس ایجنٹ سے کہا کہ وہ مجھے اپنے گُر کی باتیں کیوں بتارہا ہے؟ اگر کل کلاں کو میں اس سے پرانی گاڑی خریدنے آیا تو یہی باتیں میں چیک کروں گا جس کا اسے نقصان ہوسکتا ہے۔
اس ایجنٹ نے جواب دیا کہ وہ کاروبار حلال طریقے سے کرتا ہے، اور اس کا ایمان ہے کہ اگر وہ اپنے کسٹمرز کو تمام حقائق سے آگاہ کردے، انہیں گاڑی کے حوالے سے ضروری شعور فراہم کردے تو اس کا فائدہ کسٹمرز کو بھی ہوگا، اس جیسے ایمانداری سے کام کرنے والے ایجنٹوں یا شورومز کے مالکان کو بھی ہوگا اور اللہ بھی خوش ہوگا۔
اس ایجنٹ نے میری گاڑی کی قیمت بھی دوسروں کی نسبت ۲۰ فیصد زیادہ لگائی اور میں نے وہیں کھڑے کھڑے اس کے ساتھ سودا کرلیا۔ اس کے بعد میں نے اگلے چند برسوں میں اس ایجنٹ کے ذریعے مزید تین گاڑیوں کے سودے کئے، اپنے کئی جاننے والوں کو بھی اس کے پاس بھیجا اور سبھی نے اس کی تعریف کی۔