مفتی صاحب السلام علیکم جناب 4 یا 6 حصے ہوسکتے ہیں،قربانی میں
قربانی کے بڑے جانور (مثلاً: گائے، بیل ، بھینس اور اونٹ یا اونٹنی ) میں ایک سے لے کر سات تک حصے کیے جاسکتے ہیں، لیکن سات سے زیادہ حصے کرنا جائز نہیں ہیں، لہٰذا اگر بڑے جانور میں شرکاء سات سے کم ہوں یعنی چار یا پانچ ہوں تو کوئی حرج نہیں، چاہیں تو پانچ برابر حصوں میں تقسیم کردیں اور چاہیں تو بعض شرکاء کے حصہ بڑھاکر سات حصے پورے کرلیں، مثلاً: پانچ میں سے دو شرکاء کے دو ، دو حصے اور باقی تین کا ایک ، ایک حصہ مقرر کرلیں، دونوں صورتیں جائز ہیں، لیکن کسی شریک کا حصہ ساتویں حصے سے کم رکھنا جائز نہیں ہے، ورنہ قربانی درست نہیں ہوگی۔ ساتویں حصے سے کم ہونے کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک جانور میں سات سے زائد افراد شریک ہوجائیں، مثلاً: ایک بڑے جانور میں آٹھ افراد شریک ہوجائیں تو ہر شریک کا حصہ ساتویں حصہ سے کم ہوگا اور کسی بھی شریک کی قربانی صحیح نہیں ہوگی، ایک صورت یہ بھی ہے کہ حصے دار تو سات یا سات سے کم ہوں، لیکن کوئی ایک شریک گائے کے ساتویں حصے سے کم یعنی آدھا یا تہائی وغیرہ حصہ لے تب بھی قربانی درست نہیں ہوگی۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 70)
” ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء.
وقال مالك – رحمه الله -: يجزي ذلك عن أهل بيت واحد – وإن زادوا على سبعة -، ولا يجزي عن أهل بيتين – وإن كانوا أقل من سبعة -، والصحيح قول العامة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم : «البدنة تجزي عن سبعة والبقرة تجزي عن سبعة»۔ وعن جابر – رضي الله عنه – قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة»، من غير فصل بين أهل بيت وبيتين؛ ولأن القياس يأبى جوازها عن أكثر من واحد؛ لما ذكرنا أن القربة في الذبح وأنه فعل واحد لا يتجزأ ؛ لكنا تركنا القياس بالخبر المقتضي ؛ للجواز عن سبعة مطلقاً، فيعمل بالقياس فيما وراءه ؛ لأن البقرة بمنزلة سبع شياه، ثم جازت التضحية بسبع شياه عن سبعة سواء كانوا من أهل بيت أو ،بيتين فكذا البقرة … ولا شك في جواز بدنة أو بقرة عن أقل من سبعة بأن اشترك اثنان أو ثلاثة أو أربعة أو خمسة أو ستة في بدنة أو بقرة؛ لأنه لما جاز السبع فالزيادة أولى، وسواء اتفقت الأنصباء في القدر أو اختلفت؛ بأن يكون لأحدهم النصف وللآخر الثلث ولآخر السدس بعد أن لا ينقص عن السبع، ولو اشترك سبعة في خمس بقرات أو في أكثر فذبحوها أجزأهم ؛ لأن لكل واحد منهم في كل بقرة سبعها، ولو ضحوا ببقرة واحدة أجزأهم فالأكثر أولى، ولو اشترك ثمانية في سبع بقرات لم يجزهم؛ لأن كل بقرة بينهم على ثمانية أسهم فيكون لكل واحد منهم أنقص من السبع، وكذلك إذا كانوا عشرة أو أكثر فهو على هذا”. فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201892
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
[23/07, 18:42] Mufti Dr Salman Sb: