وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تها،کالج کے بعد جب یونیورسٹی میں داخل ہوا تو باپ کی معمولی تنخواہ اس کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر تهی،ماں کو وراثت میں 6 مرلے کا ایک پلاٹ ملا تھا،
اس کے کاغذات اپنے بیٹے کے حوالے کرتے ہوئے کہا میرا بچہ پڑھ لکھ کر افسر بنے گا تو ایسے کئی پلاٹ خریدے گا،چل میرا بچہ یہ پلاٹ بیچ کر اپنے تعلیمی اخراجات پورے کر،اس طرح اس کی پڑھائی کا سلسلہ جاری رہا،یونیورسٹی سے فراغت کے بعد اسے اچھی سی جاب بھی ملی،یوں خاندان کے برے دن ختم ہوگئے..
چند عرصے بعد ماں باپ کے لئے یہ خوشی اس وقت عارضی ثابت ہوئی جب “پسند کی شادی” کے بعد اس نے اپنے ماں باپ کو باپ کی کل پنشن یعنی 8000روپے کے رحم و کرم پہ چهوڑ کر اپنا الگ گھر بسالیا،
اس کے اپنے گھر میں گاڑی سے لے کر ائیر کنڈیشن تک کی ہر سہولت میسر تھی جب کہ دوسری جانب اس کی ماں بیماری کی وجہ سے بستر سے لگ کر رہ گئی تھی،باپ روزانہ آدھا گهنٹہ پیدل چل کر حکیم صاحب سے اس کے لئے تازہ دوا لے کر آتا،جب کہ باقی وقت لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دیسی پنکھے سے اپنی بیوی کے پسینے پوچھنے کی ناکام کوششوں میں مصروف رہتا..
ایک دن شدید بخار کی وجہ سے ماں کی حالت غیر ہوگئ،جب ماں کو کھانسی کا دورہ پڑا تو آس پڑوس کے لوگوں نے اسے ہسپتال پہنچا دیا،ڈاکٹر ماں سے کوئی بهی بات پوچھ لیتا اس کا جواب بس یہی ہوتا تھا:
“میرا بچہ میرا بچہ”
کسی نے جاکر بیٹے کو خبر دی کہ ہسپتال کے بیڈ پر آپ کی ماں زندگی کے آخری لمحات میں آپ کو یاد کررہی ہے،اچانک اس کے قدم گاڑی کی جانب بڑھنے لگے،بیوی نے اسے روکنے کی کوشش کی تو اسے دھکا دے کر گاڑی میں سوار ہوا،آج اس پر جو کیفیت طاری تھی وە شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی،بالآخر وہ ہسپتال پہنچا اور سیدھا اس وارڈ میں وارد ہوا جہاں اس کی ماں موت کی سرحد پر اس کا انتظار کررہی تھی..
جب وە وارڈ میں داخل ہوا تو ڈاکٹر ماں کے علاج میں مصروف تها،اس نے جاکر ماں سے لپٹنے کی کوشش کی،جب ڈاکٹر کو معلوم ہوا کہ یہ اس کا بیٹا ہے تو وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا ،کیونکہ ماں باپ کے ساتھ اس کے سلوک کے بارے میں پہلے ہی کسی نے ڈاکٹر کو سب کچھ بتادیا تھا،
ڈاکٹر لفظوں کے چھلنی کردینے والے اسلحے سے اس پر حملہ آور ہوا،جب ڈاکٹر ڈانٹ ڈپٹ کی تمام حدیں پار کرچکا تو اچانک ماں کے مردہ نما وجود میں کچھ حرکت محسوس ہوئی،اس نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ ڈاکٹر کا ہاتھ پکڑا اور ان کے لرزتے ہونٹوں نے زندگی کے آخری الفاظ ادا کئے:
“تم میرے بچے کو کیوں ڈانٹتے ہو”؟
اس کے بعد ماں نے گردن لڑھکا دیا اور ہمیشہ کے لیے فلک کے اس پار چلی گئی……..لمحہ فکریہ ۔۔۔۔۔آج عموماً ہر گھر کی یہ کہانی ہے …