شیخ شعراوی اپنی یادوں کو دہراتے ہوئے کہنے لگے
ایک بار میں کسی شدت پسند نوجوان سے بحث کر رہا تھا۔
میں نے اس سے پوچھا؛ کسی مسلمان ملک میں چلنے والے نائٹ کلب کو بم مار کر اڑا دینا تمہارے نزدیک کیسا ہو گا حرام یا حلال؟
کہنے لگا؛ بالکل حلال اور اس کے اندر لہو و لعب میں مصروف لوگوں کا قتل بالکل جائز۔
میں نے پوچھا؛ اچھا تم نے ان لوگوں کو ایسے وقت میں قتل کیا جب وہ اللہ سے بغاوت اور نافرمانی کے کاموں میں مصروف تھے، تو اب ان کا آئندہ ٹھکانا کیا ہوگا؟
کہنے لگا؛ سیدھے دوزخ میں جائیں گے اور بلا شک ان کا ٹھکانا جہنم ہی ہوگا۔
میں پوچھا؛ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے اور شیطان نے ایک ہی کام کیا،
شیطان بھی ان کو جہنم لیجانا چاہتا تھا اور تم بھی ایسا ہی کر دیا۔
پھر میں نے اس نوجوان کو سرکار کی وہ حدیث مبارک سُنائی؛ ایک بار جب کسی یہودی کے جنازے کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر ہوا تو آپ اس کے جنازے کو دیکھ کر رو پڑے۔ لوگوں نے پوچھا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کو کس چیز نے رلا دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ایک اور جان جو مجھ سے دوزخ سے بچا لیئے جانے سے چوک گئی(مفہوم)(نفس أفلتت منّي إلى النار)
پھر میں نے اس نوجوان سے کہا؛ دیکھ لیا تم نے اپنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں فرق؟ دیکھا تو نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح لوگوں کی ہدایت اور انہیں دوزخ کی آگ سے بچا لینے کیلئے کوشش کرتے تھے۔
دیکھ لیا تم کس طرف جا رہے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقرر کردہ راستہ کس طرف جا رہا ہے!
پھر میں اس نوجوان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ قول مبارک بھی پڑھ کر سنایا: وما ارسلناك الا رحمة للعالمين – اور ہم نے تو تمہیں تمام جہان کے لوگوں کے حق میں رحمت بنا کر بھیجا ہے (سورة الأنبياء- 107)