*پچھلے اتوار نمازِ عصر کے بعد ہم اپنی چپلیں اٹھانے شیلف کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک صحت مند خوش پوش نوجوان باہر نکلنے کی راہداری میں کھڑا لوگوں سے کچھ سوال کر رہا ہے ہم وہیں رک گئے اور اس لڑکے کے حلیئے کا تفصیلی جائزہ لیا۔ وہ کہیں سے مانگنے والا نظر نہیں آیا۔ پھر ہم نے اپنے خیال کو جھٹک دیا کہ ایسے ہی کچھ لوگوں کو سڑک پر ہاتھ پھیلائے روز دیکھتے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ وہ لڑکا اپنے قریب سے گذرنے والے شخص سے کوئی سوال کرتا ہے اور لوگ اسے مختصر سا جواب دیکر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ کسی نے اسے کچھ نہیں دیا۔*
*کیونکہ اس نے ماسک پہنا ہوا تھا، ہم نے فیصلہ کیا کہ اسے سمجھانا چاہیئے کہ مانگنا اچھی بات نہیں۔ اور اسی ارادے سے اس کے قریب رہتے ہوئے راہداری پر چل پڑے۔*
*’السلام علیکم! ایک بات پوچھنی تھی؟’، ہمیں قریب آتا دیکھ کر اس نے سوال کیا۔*
*’وعلیکم السلام! جی پوچھیں’، ہم نے اس سے فاصلہ رکھتے ہوئے رستہ چھوڑ کر رکتے ہوئے کہا۔*
*’سمع اللّہ لمن حمدہ کا کیا مطلب ہے؟’، اس نے جاننے کا تاثر دیتے ہوئے پوچھا۔*
*’آپ کو نہیں پتا؟’، ہم نے حیران ہوتے ہوئے جواباً پوچھا۔*
*’آپ کو پتا ہے تو بتا دیں ورنہ کوئی بات نہیں’، اس نے بڑے احترام سے اپنا سوال دھرایا۔*
*’بیٹا اس کا مطلب ہے، اللّہ نے اس کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی’، ہم نے مسکرا کر جواب دیا اور اسے دعا دیتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ اب ہمارے دل میں اس کے لئے اچھے جذبات تھے کہ وہ مانگنے والا نہیں تھا۔*
*مسجد سے نکلنے سے پہلے ہم نے پلٹ کر دیکھا تو وہ لڑکا اب بھی وہیں کھڑا تھا۔ ہمیں یہ عجیب لگا، ہم گیٹ سے ہٹ کر کھڑے ہو گئے تاکہ اس پر نظر رکھیں۔ وہ اسی طرح لوگوں سے سوال کر رہا تھا۔ اس مرتبہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ وہ ایک پرچی پر کچھ نوٹ بھی کرتا جا رہا ہے۔ ہم قریب ہی گیٹ کے ساتھ جوتے پہننے والوں کے لئے رکھے صوفے پر بیٹھ گئے کہ جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو تو اس سے معلوم کریں کہ جب ہم نے مطلب بتا دیا تو وہ کیوں اور لوگوں سے پوچھ رہا ہے؟ کیا اسے ہمارے بتائے مطلب سے اتفاق نہیں؟ یا کوئی اور ہی معاملہ ہے؟*
.
*پانچ منٹ بھی نہیں گذرے کہ اس نے اپنی پرچی کا جائزہ لیا اور اس پر مختصر سا کچھ لکھ کر جیب میں ڈالا اور اپنی چپل اٹھا کر گیٹ پر آ گیا۔*
.
*’بیٹا! کیا آپ ہمیں پانچ منٹ دے سکتے ہیں؟’، باہر نکلنے سے پہلے ہم نے اسے پکڑ لیا۔*
*’جی ڈاکٹر صاحب، فرمائیں’، اس کا انداز مؤدبانہ تھا۔*
*’تشریف رکھیں’، ہم نے اپنی سے دور والی نشست کی طرف اشارہ کیا۔ ‘کیا ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہم سے “سمع اللّہ لمن حمدہ” کے معنی جان لینے کے بعد آپ اور لوگوں سے کیا پوچھ رہے تھے؟’، اس کے نشست پہ بیٹھنے پر ہم نے سوال کیا۔*
*’ڈاکٹر صاحب! میں ان سے بھی “سمع اللّہ لمن حمدہ” کا مطلب پوچھ رہا تھا؟’، اس نے اعتماد سے جواب دیا۔*
*’کیا آپ ہمارے جواب سے مطمئن نہیں یا اسے غلط سمجھ رہے ہیں؟’، ہمیں کچھ تشویش ہوئی۔*
*’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ مجھے مطلب پتا تھا اور وہی جو آپ نے بتایا لیکن میں ایک سروے کر رہا تھا کہ کتنے لوگ سمجھ کر نماز پڑھتے ہیں۔ اگر آپ کو دلچسپی ہو تو میں اپنے سروے کے تنائج آپ کو بتاؤں’، اس نے وہی پرچی اپنی جیب سے نکالتے ہوئے کہا۔*
*’ضرور کیوں نہیں! ایسا کرتے ہیں کہ اندر چل کر بیٹھتے ہیں شاید کسی کو جوتے پہنے یا اتارنے کے لئے جگہ کی ضرورت ہو۔ ویسے بھی اکّا دُکّا نمازی ہی رہ گئے ہیں اندر’، ہم نے نوجوان کے سروے میں دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے کہا۔*
.
*ہم دونوں وہاں سے اٹھ کر مسجد کے صحن میں آگئے اور ایک ایسا گوشہ تلاش کر لیا جہاں سے کسی نمازی کی، ہماری دھیمی گفتگو سے یکسوئی متاثر نہ کرے۔*
*’ہاں میاں! پہلے تو آپ اپنا تعارف کرائیں اور پھر اپنے سروے کے بارے میں بتائیں’، ہم نے مزید اپنی دلچسپی اور تجسس ظاہر کرتے ہوئے کہا۔*
*اپنا مختصر تعارف کروانے کے بعد اس نے پرچی کھولی، ‘میں نے 27 نمازیوں سے یہ سوال پوچھا۔ میرا ھدف وہ لوگ تھے جنہیں میں باقاعدگی سے نماز پڑھتے دیکھتا تھا۔ 15 لوگوں نے کہاں “امام صاحب سے پوچھیں”۔ سات (7) لوگوں نے آپ والا ہی جواب دیا کہ “آپ کو نہیں پتا؟” اور تیزی سے گذر گئے۔ تین (3) کا مشورہ تھا کہ “نماز کی کتاب دیکھیں” اور دو (2) نے صاف کہا کہ “صحیح سے نہیں پتا”۔ بہت سے لوگوں نے تو شاید ڈرتے ہوئے، بات ہی نہیں سنی کہ کہیں انہیں پیسوں سے مدد کا نہ کہہ دیا جائے’۔*
.
‘اس سروے کی ضرورت آپ کو کیوں پیش آئی؟’، ہم نے نوجوان سے پوچھا۔
‘اس لئے کہ ہم نے لوگوں کی نماز میں چوری دیکھی تھی تو ہمیں خیال پیدا ہوا کہ دیکھیں کہ انہیں پتا بھی ہے کہ نماز آخر ہے کیا؟’، نوجوان کا نماز سے لگاؤ اس کی گفتگو سے عیاں تھا جب اس نے نماز میں چوری کی اصطلاح استعمال کی۔
.
‘شاباش! ماشااللّہ آپ نے تو حیران کر دیا۔ لیکن یہ تو بڑی مایوس کن صورتِ حال نکلی۔ اب آپ کا کیا ارادہ ہے؟’، ہم نے نوجوان کو ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
‘ڈاکٹر صاحب میرا ارادہ ہے کہ کسی کا نام ظاہر کئے بغیر، ان نتائج سے مسجد کے امام صاحب کو آگاہ کروں اور انہیں مشورہ دوں کہ وہ نمازیوں کوصحیح نماز، اس کے معنی کے ساتھ سکھائیں کیونکہ نبی ﷺ کی حدیث صحیح بخاری میں ہے کہ ”نماز اس طرح پڑھو جس طرح تم نے مجھے پڑھتے دیکھا ہے”۔ تو کیا آپ بغیر سمجھے نماز پڑھتے ہوں گے؟ ظاہر ہے ایسا نہیں ہے۔ تو کیا ہمیں بھی نماز کو سمجھ کر پڑھنے کی ضرورت نہیں؟’، نوجوان نے بڑے جذباتی انداز سے اپنا ارادہ ہمیں بتایا۔
.
ہم نے اس چھوٹی سی عمر میں نوجوان کی اتنی عمدہ و مثبت سوچ، طریقہ کار اور ارادے کی، ایک مرتبہ پھر کھل کر تعریف کی۔ اور ضرورت پڑنے پر اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔