.ابو مطیع اللہ حنفی
لکھنؤ بازار میں ایک غریب درزی کی دکان تھی جو ہر جنازے میں شرکت کے لئے دکان بند کر دیا کرتا تھا۔ لوگوں نے کہا کہ
“اِس طرح روز روز جنازے پر جانے سے آپ کے کاروبار کا حرج ہوتا ہوگا۔۔؟؟”
کہنے لگا کہ
“علماء سے سنا ہے کہ جب کوئی شخص کسی مسلمان کے جنازے پر جاتا ھے تو کل کو اِس کے جنازے پر بھی لوگوں کا ہجوم ہوگا۔ میں غریب ہوں، نہ زیادہ لوگ مجھے جانتے ہیں تو میرے جنازے پر کون آئے گا- اس لیے ایک تو مسلمان کا حق سمجھ کر پڑھتا ہوں اور دوسرا یہ کہ شاید کل کو مجھے بھی کوئی کاندھا دینے والا مل جائے…!”
.
“اللہ پاک کی شان دیکھیں کہ 1902ء میں مولانا عبدالحئ لکھنوی صاحب کا انتقال ہوا۔ ریڈیو پر بتلایا گیا، اخبارات میں جنازے کی خبر دی گئی، جنازے کے وقت لاکھوں کا مجمع تھا، پھر بھی بہت سے لوگ اُن کا جنازہ پڑھنے سے محروم رہ گئے۔ جب جنازہ گاہ میں ان کی نمازِ جنازہ ختم ہوئی تو اسی وقت جنازہ گاہ میں ایک دوسرا جنازہ داخل ہوا۔ اور اعلان ہوا کہ
“ایک اور عاجز مسلمان کا بھی جنازہ پڑھ کر جائیں…!”
دوستو…! یہ دوسرا جنازہ اس درزی کا تھا۔ مولانا کے جنازے کے سب لوگ بڑے بڑے اللہ والے، علمائے کرام سب نے اس درزی کا جنازہ پڑھا اور پہلے جنازے سے جو لوگ رہ گئے تھے وہ بھی اس میں شامل ہو گئے۔ اس غریب درزی کا جنازہ تو مولانا کے جنازہ سے بھی بڑھ کر نکلا، اللہ پاک نے اس درزی کی بات پوری کر کے اس کی لاج رکھی۔
کسی نے سچ کہا ہے کہ
“آج تم کسی کا خیال کرو گے تو کل کو لوگ تمہارا خیال کریں گے…”
.اے اللہ پوری امت مسلمہ کے گناہوں کی بخشش و ہدایت عطا فرما اور ہم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرما…آمین
منقول