شادی کے کئی سال بعد ابا اور بھائی اسکے گھر آرہے تھے ۔۔ وہ بہت خوش تھی ۔۔ کئی پکوان تیار کیے تھے ۔۔ مشروب بنائے تھے ۔۔ خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی ۔۔ خدا خدا کر کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ۔۔ وہ بڑے شوق سے انکو ڈرائینگ روم میں لیکر آئی۔۔ باپ نے اسکے سر پر ہاتھ رکھا بھائیوں نے بھی حال چال پوچھا۔۔ وہ جلدی سے ٹھنڈے مشروب لے آئی۔۔
“ناں پتر ۔۔۔” باپ نے دیکھتے ہی کہا ۔۔ ” ہمارے خاندان میں بیٹیوں کے گھر کا پانی بھی حرام سمجھا جاتا ہے ۔۔ اسے واپس لیجا ۔۔ ہم تو تجھے دیکھنے آئے تھے بس اب چلتے ہیں ۔۔” یہ کہہ کر ابا اور بھائی واپس چلے گئے اور اسے وہ دن یاد آگیا جب وہ دلہن بنی بیٹھی تھی ۔۔ کمرے میں اسکی سہیلیاں خوش گپیوں میں مصروف اسے چھیڑ رہی تھیں کہ ابا اور بھائی آگئے تھے ۔۔
“دیکھ پتر۔۔۔” ابا نے اس سے مخاطب ہو کر کہا تھا ۔۔۔ “ہمارے خاندان کی ریت ہے کہ شادی سے پہلے بیٹیاں اپنی جائیداد سے دستبرداری کرتی ہیں ۔۔ لے پتر تو بھی اس کاغذ پر سائن کردے۔۔۔”
اور پھر اس سے دستبرداری کے کاغذات پر دستخط کروا لیے گئے تھے ۔
اور اب وہ چپ چاپ کھڑی یہی سوچتی رہ گئی کہ یہ کیسی ریت کیسا رواج ہے کہ بیٹیوں کے گھر کا پانی پینا تو حرام ہے پر انکی جائیداد کا حصہ ہڑپ کرنا حلال ہے ۔۔
حرام اور حلال