دوسرے دن کلاس میں داخل ہوتے ہی پروفیسر انصاری نے
بلیک بورٖڈ پر ایک بڑا سا سفید کاغذ چسپاں کردیا، اس کے بعد انہوں نے اس
سفید کاغذ کے درمیان میں مارکر سے ایک سیاہ نقطہ ڈالا، پھر اپنا رخ کلاس
کی طرف کرتے ہوئے پوچھا:
”آپ کو کیا نظر آ رہا ہے….؟ ”
سب نے ہی یک زبان ہو کر کہا”ایک سیاہ نقطہ”۔
طالب علم تعجب کا اظہار کررہے تھے سر بھی کمال کرتے ہیں ، کل لکیر کھینچی تھی آج نقطہ بنادیا ہے ….
پروفیسر
نے مسکراتے ہوئے کہا ” حیرت ہے ! اتنا بڑا سفید کاغذ اپنی چمک اور پوری
آب و تاب کے ساتھ تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے، مگر ایک چھوٹا سا سیاہ
نقطہ تمہیں صاف دکھائی دے رہا ہے؟”
زندگی میں
کیے گئے لاتعداد اچھے کام سفید کاغذ کی طرح ہوتے ہیں جبکہ کوئی غلطی یا
خرابی محض ایک چھوٹے سے نقطے کی مانند ہوتی ہے۔ لوگوں کی اکثریت دوسروں کی
غلطیوں پر توجہ زیادہ دیتی ہے لیکن اچھائیوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔
آپ کی ساری زندگی کی اچھائیوں پر آپ کی کوئی ایک کوتاہی یا کسی غلطی کا ایک سیاہ نقطہ ان کو زیادہ صاف دکھائی دیتا ہے۔
آپ
آدھا گلاس پانی کا بھر کر اگر 100 لوگوں سے پوچھیں گے ، تو کم از کم 80
فیصد کہیں گے آدھا گلاس خالی ہے اور 20 فیصد کہیں گے کہ آدھا گلاس پانی ہے
…. دونوں صورتوں میں بظاہر فرق کچھ نہیں پڑتا لیکن درحقیقت یہ دو قسم کے
انداز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ جن لوگوں کا
انداز فکر منفی ہوتا ہے وہ صرف منفی رخ سے چیزوں کو دیکھتے جبکہ مثبت ذہن
کے لوگ ہر چیز میں خیر تلاشکرلیتے ہیں۔
ہماری
زندگی کے معاملات میں لوگوں کے ردعمل گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ”لوگ
کیا کہیں گے” جیسے روائتی جملے ہمیں ہمیشہ دو راہوں پر گامزن کردیتے ہیں۔
یہ دوراہی فیصلہ لینے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔اس صورتحال میں صرف
نفسیاتی الجھن کا شکار ہوکررہ جاتے ہیں۔
اس لیے آپ مستقل میں کوئی بھی کام کریں، کوئی بھی راہ چنیں ، تو یہ یاد رکھیں کہ آپ ہر شخص کو مطمئننہیں کرسکتے ۔