پرانے استاد کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کیلئے چھٹی پر جانا پڑا تو ایک نئے استاد کو اس کے بدلے ذمہ داری سونپ دی گئی..
نئے استاد نے سبق کی تشریح کر چکنے کے بعد ایک طالبعلم سے سوال پوچھا تو اس طالب علم کے ارد گرد بیٹھے دوسرے سارے طلباء ہنس پڑے.. استاد کو اس بلا سبب ہنسی پر بہت حیرت ہوئی مگر اس نے ایک بات ضرور محسوس کرلی کہ کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوگی..
طلباء کی نظروں , حرکات اور رویے کا پیچھا کرتے آخرکار استاد نے یہ نکتہ پالیا کہ یہ والا طالب علم ان کی نظروں میں نکما اور غبی ہے.. ہنسی انہیں اس بات پر آئی تھی کہ استاد نے سوال بھی پوچھا تو کس پاگل سے پوچھا..
جیسے ہی چھٹی ہوئی , سارے طلباء باہر جانے لگے.. استاد نے کسی طرح موقع پا کر اس طالب علم کو علیحگی میں روک لیا.. اسے کاغذ پر ایک شعر لکھ کر دیتے ہوئے کہا کہ کل اسے ایسے یاد کرکے آنا جیسے تجھے اپنا نام یاد ہے اور یہ بات کسی اور کو پتہ بھی نہ چلنے پائے..
دوسرے دن استاد نے کلاس میں جا کر تختہ سیاہ پر ایک شعر لکھا اور اس کے معانی و مفہوم بیان کرکے شعر مٹا دیا.. پھر طلباء سے پوچھا.. “یہ شعر کسی کو یاد ہو گیا ہو تو وہ اپنا ہاتھ کھڑا کرے..”
جماعت میں سوائے اس لڑکے کے ہچکچاتے , جھجھکتے اور شرماتے ہوئے ہاتھ کھڑا کرنے کے اور کوئی ایک بھی ایسا لڑکا نہ تھا جو ہاتھ کھڑا کرتا.. استاد نے اسے کہا سناؤ تو لڑکے نے یاد کیا ہوا شعر سنا دیا.. سارے طالبعلم حیرت و استعجاب سے دیدے پھاڑے اس لڑکے کو دیکھ رہے تھے..
استاد نے لڑکے کی تعریف کی اور باقی سارے لڑکوں سے کہا کہ اس کیلئے تالیاں بجائیں.. اس ہفتے وقفے وقفے سے , مختلف اوقات میں اور مختلف طریقوں سے ایسا منظر کئی بار ہوا.. استاد لڑکے کی تعریف و توصیف کرتا اور لڑکوں سے حوصلہ افزائی کیلئے اس کیلئے تالیاں بجواتا..
آہستہ آہستہ دوسرے طلباء کا سلوک اور رویہ اس کے ساتھ بدلنا شروع ہو گیا اور اس طالب علم نے بھی اپنے آپ کو بہتر سمجھنا شروع کر دیا اور غبی اور پاگل کی سوچ سے باہر نکل کر اپنی ذات پر بھروسہ کرنے لگا.. نہ صرف پراعتماد ہوا بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر استعمال کرکے دوسروں کے ساتھ مقابلے میں آنے لگا.. امتحانات میں خوب محنت کی اور اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا..
اگلی جماعتوں میں اور محنت کی اور یونیورسٹی تک پہنچا.. آجکل پی ایچ ڈی کر رہا ہے !!
یہ ایک اخبار میں چھپنے والا شخصی قصہ ہے جس میں ایک شخص اس ایک شعر کو اپنی کامیابی کی سیڑھی قرار دے رہا ہے جو ایک شفیق استاد نے چپکے سے اسے یاد کرنے کیلئے لکھ کر دیدیا تھا..
لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں..
ایک قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خیر کی کنجیوں کا کام کرتے ہیں , شر کے دروازے بند کرتے ہیں , حوصلہ افزائی کرتے ہیں , داد دیتے ہیں , بڑھ کر ہاتھ تھامتے ہیں , اپنی استطاعت میں رہ کر مدد کر دیتے ہیں , دوسروں کے شعور اور احساس کو سمجھتے ہیں , کسی کے درد کو پڑھ لیتے ہیں , مداوا کی سبیل نکالتے ہیں , رکاوٹ ہو تو دور کر دیتے ہیں , تنگی ہو تو آسانی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں , ترشی ہو تو حلاوت گھولنے کی کوشش کرتے ہیں , مسکراہٹ بکھیرتے ہیں , انسانیت کو سمجھتے ہیں , انسانیت کی ترویج کر دیتے ہیں , کسی کی بیچارگی کو دیکھ کر ملول ہوتے ہیں اور اپنے تئیں چارہ گری کی سبیل کرتے ہیں , ابتداء کرتے ہیں , ایجاد کرتے ہیں , ساتھ دیتے ہیں , مل کر کھاتے ہیں , دکھ بانٹتے ہیں , درد سمجھتے ہیں…..
دوسری قسم کے لوگ اس کے برعکس شر کا دروازہ کھولنے والے , قنوطیت اور یاسیت کو پروان چڑھانے والے , چلتوں کو روکنے والے , سامنے پتھر لڑھکانے والے , حوصلوں کو پست کرنے والے , منفی رویوں کی ترویج اور اجاگر کرنے والے , شکایتوں کے پلندے اٹھائے , نصیبوں , کرموں اور تقدیروں کو رونے والے , راستے بند اور راستوں میں کھونٹے گاڑنے والے ہوتے ہیں…..
آپ معلم ہیں , والد ہیں , والدہ ہیں , قائد ہیں یا ایک عام شہری ہیں ___ ایک سوال ہے آپ سے !!
کیا آپ اپنی قسم بیان کر سکتے ہیں ؟؟؟