سورہ الطّلاق آیت نمبر 2
فَاِذَا بَلَغۡنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمۡسِکُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ اَوۡ فَارِقُوۡہُنَّ بِمَعۡرُوۡفٍ وَّ اَشۡہِدُوۡا ذَوَیۡ عَدۡلٍ مِّنۡکُمۡ وَ اَقِیۡمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰہِ ؕ ذٰلِکُمۡ یُوۡعَظُ بِہٖ مَنۡ کَانَ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ۬ؕ وَ مَنۡ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجۡعَلۡ لَّہٗ مَخۡرَجًا ۙ﴿۲﴾
ترجمہ:
پھر جب وہ عورتیں اپنی (عدت کی) میعاد کو پہنچنے لگیں تو تم یا تو انہیں بھلے طریقے پر (اپنے نکاح میں) روک رکھو، یا پھر بھلے طریقے سے ان کو الگ کردو، (٤) اور اپنے میں سے دو ایسے آدمیوں کو گواہ بنا لو جو عدل والے ہوں۔ (٥) اور اللہ کی خاطر سیدھی سیدھی گواہی دو ، (٦) لوگو ! یہ وہ بات ہے جس کی نصیحت اس شخص کو کی جارہی ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا۔
تفسیر:
4: یہ اس صورت کا تذکرہ ہورہا ہے جب شوہر نے طلاق رجعی دی ہو، اس صورت میں جب عدت پوری ہونے سے پہلے شوہر کو فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ آیا وہ طلاق سے رجوع کرکے بیوی سے ازدواجی تعلق بحال کرنا چاہتا ہے یا اب بھی علیحدگی ہی مناسب سمجھتا ہے، دونوں صورتوں میں اسے یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ جو کام بھی کرے بھلے طریقے سے کرے، اگر نکاح کا رشتہ باقی رکھنا ہے تو طلاق سے رجوع کرلے اور آئندہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اگر علیحدگی چاہتا ہے تب بھی شریفانہ انداز میں بھل منسی کے ساتھ بیوی کو رخصت کرے۔ 5: رجوع کی صورت میں ترغیب دی گئی ہے کہ دوگواہوں کی موجودگی میں شوہر یہ کہے کہ میں نے طلاق سے رجوع کرلیا، عدل والے گواہوں ے مراد گواہوں کا نیک ہونا ہے، یہ رجوع کا پسندیدہ طریقہ ہے ؛ لیکن رجوع کی لازمی شرط نہیں ہے، اسی طرح اگر شوہر زبان سے کچھ نہ کہے ؛ لیکن بیوی سے حقوق زوجیت ادا کرلے ؛ بلکہ بوس وکنار ہی کرلے، تب بھی رجوع ہوجاتا ہے۔ 6: یہ ان گواہوں سے خطاب ہے جن کی موجودگی میں شوہر نے طلاق سے رجوع کیا ہو کہ اگر کبھی رجوع کو ثابت کرنے کے لئے گواہی دینی پڑے تو ٹھیک ٹھیک گواہی دیں
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی