مولانا یونس پالن پوری ایک واقعہ سناتے ہیں کہ جب میں عمرہ کرنے گیا تو آصف شیخ مجھے ساتھ لے کر ایک ڈاکٹر علوی صاحب کو مبارکباد دینے گئے کہ انہیں بادشاہ نے شہریت دی تھی۔ وہ ڈاکٹر بھی کیا کمال کے تھے۔ ان کے ساتھ جدہ کا سفر کیا۔۔۔
انہوں نے اگلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے ایک عجیب و غریب سوال کر دیا :
مکہ کے پہاڑ اتنے بنجر کیوں ہیں۔۔۔؟
شاہ صاحب میں نے دنیا کے کئی پہاڑ دیکھے مگر وہ مکہ کے پہاڑوں کی طرح بنجر اور بے آب و گیاہ نہیں ہیں۔۔۔؟
اس کے پیچھے اللہ کی منشا کیا ہے۔۔۔؟
اپنا علم تو وہیں دھرا رہ گیا. میں نے تو سرنڈر کر دیا۔۔۔
وہ مسکرائے اور کہنے لگے :
قبلہ اللہ پاک چاہتے تھے کہ آنے والے حاجیوں کی توجہ صرف میرے گھر پر رہے. اس شہر کو پکنک پوائنٹ نہیں بنایا جائے۔۔ بات دل کو لگی۔
یہ پرانا واقعہ مجھے اب کیوں یاد آیا۔۔۔؟
یہ جو رمضان شریف میں چینلز پر طوفان بدتمیزی چل رہا ہے
رمضان کوئی فیسٹیول نہیں ہے۔ وہ اوقات جو اللہ کی رحمتیں لوٹنے کے ہیں، سب ٹی وی اسکرین کے سامنے بیٹھے ہوتے ہیں۔۔۔
وہ گھڑیاں جو دعائیں مانگنے کی ہوتی ہیں ہم کیا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔۔۔؟
سراسر لہو و لعب، کھیل تماشہ اور رنگ بازی، نام اس کا رمضان اسپیشل ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہم پر رحم کرے۔۔۔
ایک ویڈیو دیکھی. دو سنگرز کچھ گا رہی ہیں۔ حاضرین تالیاں پیٹ رہے ہیں۔ کہیں انعامات کی بارش ہو رہی ہے اور کہیں موبائل بانٹے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ کچھ دین فروش مولوی بھی ہائر کر لئے جاتے ہیں تاکہ اس پروگرام کو اسلامی کہا جا سکے۔۔۔
جہالت کے پاس حق سے زیادہ دلیلیں ہوتی ہیں. یہ تو ہمیں شوگر کوٹڈ زہر کی گولیاں دی جارہی ہیں۔ ہماری عبادات کے تقدس کو برباد کرنے کا پروگرام ہے کہ ہماری مذہبی روایات و اقدار کی روح مار دی جائے۔ یہ شیطان ہی ہے جو حیلوں اور بہانوں سے ہماری خواہشات پر ڈھلے ہوئے کاموں کو دین بنا دیتا ہے۔ وہ گناہ کے کاموں کو نہایت دلفریب اور خوب صورت بنا دیتا ہے مثلاً اچھے اچھے شاعر اپنے تئیں کئی گانوں کو مشرف بہ نعت کرتے رہے کہ گانوں کی دھنوں پر نعتیں کہتے رہے۔
اللہ معاف کرے، نعت سن کر دھیان فلم کے سین پر چلا جاتا ہے۔۔۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ٹی وی کی لغویات سنتے ہوئے روزہ اچھی طرح گزر جاتا ہے حالانکہ روزہ انہی شیطانی کاموں سے بچنے کا نام ہے وگرنہ اللہ کو ہمارے بھوکا رکھنے سے کیا مطلب !!!
روزہ اللہ کے لئے ہے اور اس کا بدلہ بھی اللہ کے پاس ہے بلکہ وہ خود اس کا اجر دے گا۔ روزہ سحری سے افطار تک عبادت ہی تو ہے بلکہ اس کا اہتمام بھی عبادت ہے۔۔۔
یہ مہینہ اللہ کے لئے سرنڈر کرنے اور خود سپردگی کا نام ہے۔ سحری سے پہلے تلاوت کی جائے، افطار کے بعد تراویح کی فکر کی جائے نہ کہ کھیل تماشہ دیکھے جائیں۔۔۔
روزہ محسوس کرنے کا نام ہے اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا نام۔۔۔
مجھے تو اب جاکے احساس ہوا کہ اللہ نے مکہ کے پہاڑ اس قدر بنجر کیوں رکھے ہوئے ہیں۔
اللہ ہماری توجہ چاہتا ہے وگرنہ وہ بہت بے نیاز ہے اتنا بے نیاز ہے کہ بندہ سراسر زنگ ہو جاتا ہے، دل سیاہ ہو جاتا ہے اور عقل کے در بند ہو جاتے ہیں۔ اس کی توجہ ہی تو روشنی ہے۔ سب کچھ انسان پر عیاں کر دیتی ہے۔ شرط وہی ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے، طلب پیدا کی جائے اور دامن وا کیا جائے۔۔۔
جس طرح کے میلے ٹھیلے ٹی وی پر ہو رہے ہیں اللہ تو انسان کو ویسے ہی بھول جاتا ہے۔ وہاں تو اپنی خواہشات کو جوس پلایا جارہا ہوتا ہے۔
سب رنگینیوں میں گم ہیں. روزہ داروں کو چاہیے کہ وہ اپنے اس عظیم عمل کی حفاظت کریں۔۔۔
رسول پاکﷺ نے جبرائیل ؑ کی ایک دعا پر کہ جس کو رمضان شریف ملے وہ اپنی بخشش نہ کروا سکے، اس کی ھلاکت ہو، آمین کہی تھی۔۔۔
برکتوں والے اس مہینے کو قیمتی بنائیں اور اللہ کی ناراضگی کا باعث نہ بنیں۔
منقول