back to top


 

ایک ڈاکٹر
تھے۔

اکثر ایسا
ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لیئے لکھتے 

کہ اس مریض
سے پیسے نہیں لینے۔ 

اور جب کبھی
مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئیے؟ 

تو وہ کہتے
کہ مجھے شرم آتی ھے۔

کہ جس کا نام
ابوبکر ھو، عمر ھو، عثمان ھو، علی ھو یا خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ ھو 

تو میں اس سے
پیسے لوں۔

ساری عمر
انہوں نے خلفائے راشدینؓ، امہات المومنینؓ

اور بنات
رسولﷺ کے ھم نام لوگوں سے پیسے نہ لیئے۔ 

یہ ان کی
محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔

 

امام احمد بن
حنبل نہر پر وضو فرما رھے تھے 

کہ ان کا
شاگرد بھی وضوکرنے آن پہنچا، 

لیکن فوراً
ہی اٹھ کھڑا ھوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔

پوچھنے پر
کہا 

کہ دل میں
خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ھے۔

مجھے شرم آئی
کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔

 

اپنے سگے چچا
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا 

کہ آپ بڑے
ہیں یا میں؟

(عمر پوچھنا
مقصود تھا) 

کہا یارسول
اللہﷺ بڑے تو آپ ھی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ھے۔

 

مجدد الف
ثانی رات کو سوتے ھوئے یہ احتیاط بھی کرتے 

کہ پاؤں
استاد کے گھر کی طرف نہ ھوں 

اور بیت
الخلا جاتے ھوئے یہ احتیاط کرتے 

کہ جس قلم سے
لکھ رہا ھوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔

 

ادب کا یہ
انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ھے 

اور یہ کوئی
برصغیر کے ساتھ ھی خاص نہ تھا 

بلکہ جہاں
جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ھوئی 

جس میں بڑوں
کے ادب کو خاص اھمیت حاصل تھی 

کیوں کہ رسول
اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا 

کہ جو بڑوں
کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ھم میں سے نہیں۔

 

ابھی زیادہ زمانہ
نہیں گزرا 

کہ لوگ ماں
باپ کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے 

اور اُن کے
حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔ 

اس کے صدقے
اللہﷻ انہیں نوازتا بھی تھا۔ 

اسلامی
معاشروں میں یہ بات مشہور تھی 

کہ جو یہ
چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے رزق میں اضافہ کرے 

وہ والدین کے
ادب کا حق ادا کرے۔

اور جو یہ
چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔

 

ایک دوست
کہتے ہیں کہ 

میں نے بڑی
مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا 

کہ بیٹا
تمہارا فلاں بھائی کمزور ھے 

یہ پلاٹ اگر
تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔ 

حالانکہ وہ
بھائی والدین کا نافرمان تھا۔ 

اس (دوست) کا
کہنا ھے کہ 

عقل نے تو
بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ھے 

مگر میں نے
عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ھے، 

اچھا ھے دل
کے ساتھ رھے پاسبان عقل

لیکن کبھی
کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے، 

چنانچہ عقل
کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔ 

کہتے ہیں کہ
والد صاحب بہت خوش ھوئے 

اور انہی کی
دعا کا صدقہ ھے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں 

جب کہ بھائی
کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ھے۔

 

والدین کی
طرح 

استاد کا ادب
بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی 

اور اس کا
تسلسل بھی صحابہؓ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔

 

حضور ﷺ کے
چچا کے بیٹے ابن عباسؓ 

کسی صحابی سے
کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔ 

اس کا دروازہ
کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے 

اور جب وہ
صحابیؓ خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے 

تو ان سے
حدیث پوچھتے 

اور اس دوران
سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی 

اور یہ
برداشت کرتے رہتے۔ 

وہ صحابی
شرمندہ ھوتے اور کہتے 

کہ آپؓ تو
رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا 

تو یہ کہتے
کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں 

اور اپنے کا
م کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔

 

کتنی ھی مدت
ھمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا 

(بلکہ اسلامی
مدارس میں آج بھی ھے) 

کہ ہر مضمون
کے استاد کا ایک کمرہ ھوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے
آتے 

جب کہ اب
شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں 

اور استاد
سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ھے۔

 

مسلمان
تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ھی محدود نہ تھا 

بلکہ باقی
رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ھی احتیاط کی جاتی تھی۔ 

وہاں چھوٹا،
چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔ 

چھوٹا عمر
بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ھی رہتا تھا۔

 

ابن عمرؓ جا
رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔ 

سواری سے
اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔ 

کسی نے کہا
کہ 

یہ بدو ہے
تھوڑے پہ بھی راضی ھو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔ 

فرمایا کہ یہ
میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا 

تو مجھے شرم
آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔

 

اسلامی تہذیب
کمزور ھوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اھمیت کھو
بیٹھی۔ 

اب برابر ی
کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ھوگئے اور شاگرد استاد کے
برابر۔ 

جس سے وہ سار
ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔

 

اسلام اس
مساوات کا ھرگز قائل نہیں کہ جس میں ابوبکرؓ اور ابوجہل برابر ھو جائیں۔ 

ابو بکرؓ
ابوبکرؓ رہیں گے اور ابو جہل ابو جہل رھے گا۔

اسی طرح
استاد، استاد رھے گا اور شاگرد، شاگرد۔ 

والد، والد
رھے گا اور بیٹا، بیٹا۔ 

سب کا اپنا
اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ھے 

اُن کو اُن
کے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترا م دینا ھی تہذیب کا حسن ھے۔

 

مغربی تہذیب کا
مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار (شاید) اسی راستے سے ھوا ھے 

جب کہ مسلمان
عریانی اور فحاشی کو سمجھ رھے ہیں۔ 

عریانی اور
فحاشی کا برا ھونا سب کو سمجھ میں آتا ھے 

اس لیئے اس
کے خلاف عمل کرنا آسان ھے 

جب کہ حفظِ
مراتب اور محبت کے آداب کی اھمیت کا سمجھ آنا مشکل ھے 

اس لیئے یہ
قدر تیزی سے رُو بہ زوال ھے۔

 

دو باتیں پیش خدمت ہیں

دو باتیں پیش خدمت ہیں بیمار ذہن بمقالہ صحت مند سوچ حضرت نوح علیہ السلام نے صرف ایک بار جانوروں کو بلایا اور وہ جان بچانے...

چھوٹے سے چھوٹا ذرہ بھی اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے

سورہ لقمٰن آیت نمبر 16 یٰبُنَیَّ  اِنَّہَاۤ  اِنۡ تَکُ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ  مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَکُنۡ فِیۡ صَخۡرَۃٍ  اَوۡ فِی السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِی الۡاَرۡضِ یَاۡتِ بِہَا اللّٰہُ...

بےایمان چور

اس ہفتے کے ٹاپ 5 موضوعات

دعا – ‎اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کل ذَنبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَيْهِ

‎اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کل ذَنبٍ وَّاَتُوْبُ...

قرآنی ‏معلومات ‏سے ‏متعلق ‏ایک ‏سو ‏سوالات ‏

قرآنی ‏معلومات ‏سے ‏متعلق ‏ایک ‏سو ‏سوالات ‏

Searching for Happiness?

Happiness is the only goal on earth...

چھوٹے چھوٹے واقعات – بہترین سبق

امام احمدبن حنبل نہر پر وضو فرما رہے تھے...

کرایہ دار اور انکی فیملی

وہ گرمیوں کی ایک تپتی دوپہر تھی۔ دفتر سے...

جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ بیشک ساری مخلوق میں سب سے بہتر ہیں

​ سورہ البیّنۃ آیت نمبر 7 اِنَّ  الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا...

Hadith: best deeds. Are you doing it?

Bismillah Walhamdulillah Was Salaatu Was Salaam 'ala Rasulillah ...

آپ نے کبھی دوسروں کے لیے سیب کاٹے ہیں ؟

 کچھ لوگ سیب سادہ طریقے سے کاٹ کر سامنے رکھ...

مدینہ سے ترکی – یہ حادثہ میری ہدایت کا سبب بن گیا

یہ دو ایسے نوجوانوں کا قصہ ہے جو مدینہ...

سود ۔ رِبا اور ہم

جس زمانے میں میرے پاس حکومت کی ذمہ داری...

متعلقہ مضامین

کہانی – ایک سانپ

بند دکان میں کہیں سے گهومتا پهرتا ایک سانپ گهس آیا. یہاں سانپ کی دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تهی۔اس کا جسم وہاں پڑی ایک...

ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺑﻨﺪﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻧﺴﺨﮧ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﻮﮞ

ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻝ ﮐﺮ رﻭﮈ ﭘﺮ ﭼﻼ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ کہﺍﯾﮏ ﺑﺎبا ﻧﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﭨﮩﻨﯽ ﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺭﮔﮍ...

طنز کا طریقہ اور طعنہ دینے کا طریقہ اختیار کرنا

آج سے تقریبا تیس پینتیس سال پہلے کی بات ہے ، میں اس وقت دارالعلوم کراچی سے نیا نیا فارغ ہوا تھا ، اس...

بیٹا یہ لوگ میرے دوست نہیں تھے

ڈاکٹر نے جب میرے والد کے حقے پر پابندی لگائی تو یہ خبر میرے والد کے لیے صورِ اسرافیل کی حیثیت رکھتی تھی‘ یہ پریشان...

ﺟﮭﻮﭦ ﻣﻮﭦ ﮐﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭ

ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﯿﺦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ ‘ ﻣﯿﮟ ﺑﺤﺮﯼ ﺟﮩﺎﺯﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮈﻧﮓ ﺍﻥ ﻟﻮﮈﻧﮓ ﮐﺮﺗﺎ...

شکوے سے شکر تک

آنسو سے مٹھائی تک ایک صاحب شدید مالی تنگی کا شکار تھے… کھانا پینا تو خیر پورا ہو جاتا تھا مگر رہائش کی سخت پریشانی...