کچھ خواتین کسی فوتگی والے گھر بھی جائیں تو واپس آ کر اس طرح تبصرہ کر رہی ہوتی ہیں کہ بیٹی نے تو نیا سوٹ ڈالا تھا اسے تو دکھ نہیں ہی نہیں تھا، بہو تو ایسے ہنس ہنس کہ بات کر رہی تھی جیسے اس کی دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہو.،کوئی زیادہ رو رہا ہو تو اعتراض، کوئی صبر کر کے بیٹھا ہو تو مسئلہ، گھر صاف تو تبصرہ، صاف نا ہو تو تنقید،،
میری بہن تمہیں کس نے حق دیا ہے دوسروں کو جج کرنے کا؟؟ کسی کا جوتا پہن کر جب تک خود نا چلو، تب تک اس کے چلنے پر اعتراض نا کرو.
خود تو 4 پلیٹ بریانی تناول کر کے ڈکار بھی نا ماریں اور دوسروں پر تابڑ توڑ حملے..
خدارا رحم کریں.. کم از کم سوگ میں شامل نہیں ہو سکتی تو بلا وجہ ان کی عزت بھی نا اچھالیں،،
یہ وقت سب پر، ہر گھر مین میں آنا ہے اور آتا ہے..
ہمارے مرد حضرات بھی کچھ کم نہیں، دو لفظ تعزیت کے تو ٹھیک طرح سے بولنے آتے نہیں اور سیاسی تھیٹر ایسے سجا کہ بیٹھ جا تے ہیں کہ فوتگی پر نہیں الیکشن کمپین پر آئے ہوں،،
جس کے سر سے باپ کا سایہ اٹھا ہے کوئی اس کی بھی تو دلجوئی کرے، اس کے غم کا مداوا بھی تو کوئی کرے، لیکن ہمیں کسے کے غم سے کیا؟ ہم تو “رسم دکھاوا” کے لیے گئے ہیں، ہماری بلا سے کوئی مرتا ہے تو مرے،
ہم تو پوچھیں گے کہ بھائی جی کھانے کا انتظام ہو گیا نا؟؟ کتنی دیگیں بنوانی ہیں؟؟ 6 دیگیں تو کم ہیں، برادری بھی ہے محلے داری بھی ہے.
وہ بیچارہ باپ کے سوگ کو بھول کر اس پریشانی میں لگ جاتا ہے کہ کہاں سے قرض پکڑوں، کیونکہ کھانا صحیح نا بنایا تو باتیں ہوں گی ساری زندگی باپ کا کھایا مرنے پر روٹی بھی صحیح نا دے سکا؟؟
ہمیں سوچنا ہو گا کون لوگ ہیں ہم؟؟ مسلمان تو دور کیا ہم انسان بھی ہیں.؟؟؟
جانوروں کا بھی کوئی مر جائے تو وہ ایسے دعوتیں نہیں اڑاتے اور اشرف المخلوقات کا تاج پہن کر حیوانیت کی ساری حدیں عبور کر جانا..کہاں کی انسانیت ہے
میں نے میت کے گھر میں ایسی آوازیں بھی سنی ہیں جو دیگ پر بانٹنے میں لگا ہو تا ہے اسے کہا جاتا ہے “ذرا پلیٹ میں 4 بوٹیاں زیادہ ڈال دینا وہ داماد بھی آیا ہے تو اسے کھانا دینا ہے”
وہ بیٹی جو ماں یا باپ کی میت پر رو رو کر ہلکان ہو رہی تھی جیسے ہی جنازہ اٹھتا ہے تو وہ سارا غم پس پشت ڈال کر کھانا تقسیم میں کرنے لگ جاتی ہے کہ سسرال والے بھی آئے ہیں، انہیں کھانا نا ملا تو ساری زندگی باتیں سننے کو ملیں گی کہ تیرے باپ کی میت پر تو ہمیں کھانا بھی نہیں پوچھا کسی نے…
میں نے اس بات پر بھی تبصرے سنے ہیں کہ سالن میں تو “تری” (گھی) ہی نہیں تھا، ہماری پلیٹ میں تو بس شوربا ہی آیا،..
ہم بحیثیت معاشرہ ظالم بن گئے ہیں، خوشیاں تو کجا ہم نے مرگوں کو بھی اپنے “شریکے” پورے کرنے کے لیے ایک ایونٹ بنا لیا ہے..
جب میں کہتا ہوں الٰہی میرا احوال دیکھ
حکم ہوتا ہے بندے ذرا نامہ اعمال دیکھ
کچھ سوال آپ کے ضمیر کےدروازے پر چھوڑ رہا ہوں
کیا ہم فوتگی کے کھانے کا بائیکاٹ نہیں کر سکتے؟
کیا ہم بھوک لگنے پر بازار سے کھانا نہیں کھا سکتے؟
کیا ہم گھر میں ایسا اصول نہیں بنا سکتے کہ خاندان میں کوئی کسی فوتگی پر نہیں کھائے گا؟؟
*سوچیے گا ضرور…