راوى کہتا ہے کہ میں سرکاری ہسپتال میں اپنی بیٹی کے کچھ ٹیسٹ کروانے کیلیئے گیا ہوا تھا۔ فرصت ملنے پر وہیں بنی ہوئی ٹک شاپ سے اپنی بیٹی کیلیئے برگر اور جوس خریدا جو اس نے مزے سے وہیں کھڑے کھڑے کھانا پینا شروع کر دیا۔
اتنی دیر میں میری نظر بنچ پر بیٹھے ایک بچے پر پڑی جو میری بیٹی کو برگر کھاتے بڑی حسرت سے دیکھ رہا تھا۔ میں نے انسانی ہمدردی میں جلدی سے جا کر اس بچے کیلیئے بھی برگر اور جوس خریدا جو بچے نے بلا توقف کھانا پینا شروع کر دیا۔
اتنی دیر میں بچے کی ماں جو اس کی پرچی بنوانے کیلیئے کھڑکی پر گئی ہوئی تھی واپس آئی، بچے کو برگر کھاتے دیکھا تو دونوں ہاتھ اٹھا کر، باقاعدہ منہ قبلہ رخ کر کے، اسے بد دعائیں دینے لگی جس نے اس کے بچے کو یہ چیزیں لیکر دی تھیں۔ کہہ تو وہ بہت کچھ رہی مگر میں نے اپنی بچی کو اُٹھا کر وہاں سے فرار ہوتے ہوئے جو چند باتیں سنیں وہ یہ تھیں کہ:
ایدا ککھ نہ روے جنے میرے بچے نوں ایہہ برگر لے کے دتا اے۔ میں اتنی دور سے کرایہ بھاڑا لگا کر اس کے نہار منہ ٹیسٹ کرانے لائی تھی اور اس بے شرم نے اس کے ساتھ ظلم کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔