رمضان کا مہینہ جیسے جیسے قریب آتا ہے
لوگوں میں مختلف نوعیت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
1⃣ ایک لوگ وہ ہوتے ہیں *جنہیں رمضان کے آنے اور جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ نہ روزہ رکھتے ہیں، نہ دیگر عبادات کے جھمیلے میں پڑتے ہیں۔ گھر کے کسی فرد نے روزہ رکھ لیا ہو تو وہ اس کے ساتھ افطاری میں شریک ہو جاتے ہیں۔ باہر بھی افطار پارٹی میں شرکت کا موقع ملا تو سماجی پہلو سے یا پھر افطار سے اپنا حصہ وصول کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ البتہ عید یہ لوگ بہت اہتمام سے مناتے ہیں۔ عید کی رات اگر خرمستیوں میں کالی نہ کی ہو تو عید کی نماز پڑھ کر مسجد میں سالانہ حاضری کی رسم بھی پوری کرلیتے ہیں*۔
2⃣ دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو *رمضان میں چار و ناچار روزہ رکھتے ہیں۔ مگر وہ سمجھتے ہیں کہ مشقت اور تنگی کا مہینہ آرہا ہے۔ سخت گرمی میں پیاس کی مشقت اور بھوک کی تکلیف جھیلنی پڑے گی۔ راتوں کی نیند خراب ہوگی۔ کاروبارِ حیات متاثر اور معمولاتِ زندگی درہم برہم ہو جائیں گے۔ ایسے لوگ رمضان کا ایک ایک دن گن کر مہینہ پورا کرتے ہیں۔ آخرکار اس مہینے کے خاتمے پر ان کی یہ سالانہ مشقت ختم ہو جاتی ہے۔ وہ جیسے رمضان سے پہلے تھے ویسے ہی رمضان کے بعد رہتے ہیں*۔
3⃣ ایک تیسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو *رمضان کے روزے ذوق و شوق سے رکھتے ہیں۔ تلاوت قرآن، نوافل اور دیگر عبادات کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ روزہ کی مشقت تو خیر انہیں بھی محسوس ہوتی ہے، مگر وہ اسے حوصلے سے برداشت کرتے ہیں۔ وہ امید رکھتے ہیں کہ اس مشقت کے بدلے میں جو اجر انہیں ملے گا اس کے مقابلے میں یہ تکلیف کچھ بھی نہیں۔ امید ہے کہ ایسے صالحین اللہ سے اپنی محنت کا بہترین اجر پائیں گے*۔
4⃣ چوتھی قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جو *رمضان کے آنے سے قبل ہی رمضان کے انتظار میں ڈھل جاتے ہیں۔ وہ رجب اور شعبان کے مہینوں کا ایک ایک دن گن گن کر گزارتے ہیں۔ ان کی عید اس دن ہی سے شروع ہو جاتی ہے جب رمضان کا چاند طلوع ہوتا ہے۔ تیسرے گروہ کی طرح یہ لوگ بھی روزہ کی مشقت خوش دلی سے جھیلتے اور عبادات میں سرگرمی سے حصہ لیتے ہیں، مگر ان کا اصل امتیاز یہ ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا مہینہ بن جاتا ہے۔ روزہ کی ایک ایک مشقت ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی مہربانیوں کا تعارف بن جاتی ہے*۔
جب پیاس کی شدت سے حلق میں کانٹے پڑنے لگتے ہیں تو وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں کہ مالک ایک ایسی کائنات میں جہاں پانی کا ایک قطرہ نہیں تو نے اس کرہ ارض کو پانی کا گہوارہ بنا دیا۔ مالک تو ساری زندگی ہمیں پانی پلاتا ہے مگر ہم نہ جان سکے کہ یہ پانی کیسی نعمت ہے۔ آج جب حلق میں کانٹے پڑے تو معلوم ہوا کہ یہ بے ذائقہ مشروب کائنات کے ہر ذائقے سے بڑھ کر ہے۔ ہم اس نعمت کے لیے شکر گزار ہیں۔
جب بھوک سے ان کا وجود نڈھال ہوتا ہے تو کہتے ہیں کہ آقا تو سورج، بادل، ہوا، سمندر، پہاڑ، دریا اور زمین سب کو ملا کر ہمارے لیے غذا فراہم کرتا ہے۔ جس دنیا میں ہزاروں قسم کے حیوانات کے لیے صرف بے ذائقہ گھاس اگتی ہے وہاں تو نے ایک انسان کے لیے ہزارہا قسم کے ذائقے تخلیق کر دیے۔ ہم دل کی گہرائیوں سے تیری عظمت و عنایت کے معترف ہیں۔
غرض روزہ کی ہر مشقت اور بے آرامی ان کے لیے معرفت الٰہی کے نئے دروازے کھول دیتی ہے۔ کھانے پینے کی محرومی ان پر یہ واضح کر دیتی ہے کہ ان جیسی لاکھوں نعمتوں میں وہ ہر لمحے جی رہے ہیں۔ اس احساس سے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔
ان کا سینہ خدائی احساسات کی تجلیوں سے جگمگا اٹھتا ہے۔
ان کی راتیں ذکر الٰہی سے منور ہو جاتی ہیں۔
ان کا وجود اس خدائی جنت کے لیے سراپا طلب بن جاتا ہے جہاں کوئی بھوک ہوگی نہ پیاس۔ جہاں ہر نعمت بے روک ٹوک اور بے حد و حساب ملا کرے گی۔ جہاں سے وہ نکلنا چاہیں گے اور نہ کوئی انہیں نکالے گا۔
鹿 *وہ اس جہنم کے تصور سے لرز جاتے ہیں جہاں محرومی کی ہر ممکنہ شکل جمع کر دی جائے گی۔ جہاں خدا کے مجرم، سرکش اور غافل ابد تک خود پر پچھتاووں کی سنگ باری کرتے رہیں گے کہ کیسا عظیم موقع انہوں نے گنوا دیا۔ جہاں وہ ہمیشہ ندامت کے اشکوں کے سیلاب بہاتے رہیں گے کہ انہوں نے کیسے مہربان رب کو پایا اور کس بے دردی سے اسے بھلا دیا*۔
یہ اہل ایمان روزہ کی حالت میں اس جہنم سے اپنے رب کی پناہ مانگتے رہتے ہیں۔
⚡ وہ اپنی خطاؤں پر شرمسار رہتے ہیں۔
⚡ وہ سراپا احتساب بن کر اپنی سیرت وکردار کا جائزہ لیتے ہیں۔
⚡ وہ عمل صالح کی ہر شکل کو اپنے وجود کا حصہ بنانے کا عزم کرتے ہیں۔
⚡ وہ معصیت کی ہر قسم کو زہریلا سانپ سمجھ کر اس سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے رمضان میں اپنے رب سے ملاقات کرلی۔
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے جان لیا کہ اللہ معبود حقیقی, ہے.