میرے
ابا جی بتایا کرتے تھے کہ ایک دن اُن کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے
ملازم کی تنخواہ چوری ہو گئی تو سب نے کہا کہ یار بڑا افسوس ہوا۔ تو وہ
کہنے لگے کہ ’’خدا کا شکر ہے، نوکری تو ہے۔’’
ابا جی بتایا کرتے تھے کہ ایک دن اُن کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والے
ملازم کی تنخواہ چوری ہو گئی تو سب نے کہا کہ یار بڑا افسوس ہوا۔ تو وہ
کہنے لگے کہ ’’خدا کا شکر ہے، نوکری تو ہے۔’’
ایک ماہ بعد خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اُس کی نوکری چلی گئی۔
لوگوں
اور اباجی نے اُن سے افسوس کیا تو کہنے لگے، ’’جی خدا نے اپنا گھر دیا ہے،
اندر بیٹھ کر اچار روٹی کھا لیں گے۔ اللہ کا فضل ہے۔ پرواہ کی کوئی بات
نہیں۔’’
اور اباجی نے اُن سے افسوس کیا تو کہنے لگے، ’’جی خدا نے اپنا گھر دیا ہے،
اندر بیٹھ کر اچار روٹی کھا لیں گے۔ اللہ کا فضل ہے۔ پرواہ کی کوئی بات
نہیں۔’’
یہ خدا کی طاقت تھی۔
مقدمے بازی میں کچھ عرصہ بعد اُس کا گھر بھی فروخت ہو گیا۔
وہ پھر بھی کہنے لگا کہ، ’’فکر نہیں، میرے ساتھ میری بیوی ہے۔ یہ بیالیس سال کا ساتھ ہے۔
بیوی فوت ہوئی تو اُس نے کہا، ’’کوئی بات نہیں, میں تو زندہ سلامت ہوں، تندرست ہوں۔’’
وہ شوگر کا مریض تھا، اُس کی ایک ٹانگ کٹ گئی۔ میرے والد نے کہا کہ ’’بہت بُرا ہوا۔’’
اُس نے کہا ’’ ڈاکٹر صاحب، ایک ٹانگ تو ہے۔’’
بیماری بڑھنے کے بعد اُس کی دوسری ٹانگ بھی کٹ گئی۔
میرے
والد بتاتے ہیں کہ جب وہ فوت ہوا تو اُس نے اپنی بہو سے کہا کہ، ’’بیٹا
کمال کا بستر ہے جس پر میں فوت ہو رہا ہوں۔ کیا خوبصورتی سے اِس چارپائی کی
پائنتی کَسی ھوئی ھے۔ مزا آ رہا ہے۔’’
والد بتاتے ہیں کہ جب وہ فوت ہوا تو اُس نے اپنی بہو سے کہا کہ، ’’بیٹا
کمال کا بستر ہے جس پر میں فوت ہو رہا ہوں۔ کیا خوبصورتی سے اِس چارپائی کی
پائنتی کَسی ھوئی ھے۔ مزا آ رہا ہے۔’’
ایسی
طاقت اور قناعت پسندی کی ضرورت ہے۔ ایسی طاقت اِس وجہ سے حاصل ہوتی ہے وہ
دوسروں کے لئے اپنا کندھا، بازو یا صرف اپنا کان کُھلا رکھتے ہیں اور لوگوں
کو سہارا فراہم کرتے ہیں۔
طاقت اور قناعت پسندی کی ضرورت ہے۔ ایسی طاقت اِس وجہ سے حاصل ہوتی ہے وہ
دوسروں کے لئے اپنا کندھا، بازو یا صرف اپنا کان کُھلا رکھتے ہیں اور لوگوں
کو سہارا فراہم کرتے ہیں۔
اللہ ہم سب کو صبر و قناعت کی دولت سے مالامال کرے۔ آمین!
اشفاق احمد کی کتاب ’’زاویہ 3’’ سے اقتباس