خلیفہ
عبدالملک بن مروان بیت اللہ کا طواف کر رھا تھا- اسکی نظر ایک نوجوان پر پڑی- جس
کا چہرہ بہت پُروقار تھا- مگر وہ لباس سےمسکین لگ رہا تھا-
خلیفہ
عبدالملک نےپوچھا-
یہ نوجوان
کون ھے- تو اسےبتایا گیا- کہ اس نوجوان کا نام سالم ھے- اور یہ سیدنا عبداللہ بن
عمر رضی اللہ عنہ کا بیٹا اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا پوتا ھے-
خلیفہ
عبدالملک کو دھچکا لگا- اور اُس نےاِس نوجوان کو بلا بھیجا-
خلیفہ
عبدالملک نے پوچھا کہ بیٹا میں تمہارے دادا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا بڑا
مداح ھوں- اور مجھے تمہاری یہ حالت دیکھ کر بڑا دکھ ھوا ھے اور مجھے خوشی ھو گی-
اگر میں تمھارے کچھ کام آ سکوں- تم اپنی ضرورت بیان کرو- جو مانگو گے- تمہیں دیا
جائے گا-
نوجوان
نےجواب دیا *اے امیر المومنین! میں اس وقت اللہ کےگھر بیتُ اللہ میں ھوں اور مجھے
شرم آتی ھے- کہ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر کسی اور سے کچھ مانگوں۔* خلیفہ عبدالملک
نے اسکے پُرمتانت چہرے پر نظر دوڑائی اور خاموش ھوگیا-
خلیفہ نے
اپنے غلام سے کہا- کہ یہ نوجوان جیسے ہی عبادت سے فارغ ھو کر بیتُ اللہ سے باہر
آئے- تو اسے میرے پاس لے کر آنا-
سالم بن
عبداللہؓ بن عمرؓ جیسے ھی فارغ ھو کر حرمِ کعبہ سے باہر نکلے- تو غلام نے اُن سے
کہا- کہ امیر المؤمنین نے آپکو یاد کیا ھے-
تو سالم بن
عبداللہؓ خلیفہ کےپاس پہنچے-
خلیفہ
عبدالملک نےکہا-
نوجوان! اب
تو تم بیتُ اللہ میں نہیں ھو- اب اپنی حاجت بیان کرو- میرا دل چاھتا ھے- کہ میں
تمہاری کچھ مدد کروں-
سالم بن
عبداللہؓ نےکہا-
اےامیرالمؤمنین!
آپ میری کونسی ضرورت پوری کر سکتے ہیں- دنیاوی یا آخرت کی؟
امیرالمؤمنین
نےجواب دیا-
کہ میری
دسترس میں تو دنیاوی مال و متاع ھی ھے- سالم بن عبداللہؓ نے جواب دیا- *امیر
المؤمنین دنیا تو میں نے کبھی اللہ سے بھی نہیں مانگی- جو اس دنیا کا مالکِ کُل
ھے- آپ سےکیا مانگوں گا- میری ضرورت اور پریشانی تو صرف آخرت کے حوالے سے ھے-* اگر
اس سلسلے میں آپ میری کچھ مدد کر سکتے ہیں- تو میں بیان کرتا ھوں-
خلیفہ حیران
و ششدر ھو کر رہ گیا-
اور کہنے
لگا- کہ نوجوان یہ تُو نہیں، تیرا خون بول رھا ھے-
خلیفہ
عبدالملک کو حیران اور ششدر چھوڑ کر سالم بن عبداللہؓ علیہ رحمہ وہاں سے نکلے- اور
حرم سے ملحقہ گلی میں داخل ھوئے اور نظروں سے اوجھل ھو گئے-
*یوں ایک
نوجوان حاکمِ وقت کو آخرت کی تیاری کا بہت اچھا سبق دے گیا*