امی سو رہی ہیں.اور شاید بڑی گہری اور پرسکون نیند سو رہی ہیں ۔
میں جب بھی گاؤں آتا ہوں سب سے پہلے امی کے پاس جاتا ہوں لیکن امی استقبال کے لیے اٹھتی ہی نہیں۔ امی جذبات سے بے قابو ہوکر میرا بچہ آگیا کی آواز نہیں لگاتی۔ میں امی کو بتاتا ہوں امی میں نے اتنی پوزیشنیں لیں امی خوش ہی نہیں ہوتی۔ میں امی سے کہتا ہوں مجھ پر یہ پریشانی آئی امی حوصلہ ہی نہیں دیتی۔ کیونکہ جہاں امی سو رہی ہیں اسے قبر کہتے ہیں۔
امی کے جانے بعد بس اتنا ہوا ، جس دن میں نے گاؤں آنا ہوتا ہے اس دن گلی کے نکڑ پر دوپٹے سے چہرہ ڈھانپے سراپا انتظار بن کر اب کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔۔آنچل سے منہ چھپائے وہ ترستی ہوئی دو آنکھیں اب نظر نہیں آتی۔ گاؤں میں قدم رکھتے ہی گھر کے دروازے کھل نہیں جاتے . اب میرے آنے سے پہلے پورے گھر میں اگربتی کی خوشبو نہیں سلگائی جاتی۔ میرے آنے کے بعد نظر بد اور حفاظت کے لئے دم نہیں جاتا۔ میری پسندیدہ ڈش کے لئے کسی کو بازار بھیج کر قیمہ نہیں منگوایا جاتا۔ بیٹا دوپہر میں کیا کھاؤگے کی فرمائشیں نہیں پوچھی جاتی۔ اٹھو بیٹا دس بج گئے ناشتہ کرلو کی صدا بلند نہیں ہوتی۔ میرے لئے دیسی گھی اور لسی کا انتظام نہیں کیا جاتا۔ میرے آنے سے گھر میں ہنگامہ بپا نہیں ہوتا میرے جانے کے بعد طوفان نہیں اٹھتا۔ اب تو خاموشی سے گھر آنا ہوتا ہے چپکے سے جانا ہوتا ہے۔ آنے پر خوشیوں اور جانے پر اشکوں کی برسات نہیں ہوتی ۔
جب مائیں نہیں رہتی تو گھر کے خالی دروازے بڑی تکلیف دیتے ہیں۔۔بس یہی حسرت ہے امی زندہ ہوتی تو زندگی کتنی حسین ہوتی