*کبیرہ صغیرہ
گناہ کی معافی کا مراقبہ* :
*طریقہ:*
اس پہلے
مراقبے میں انسان اللہ سے رو رو کرمعافی طلب کرے اور آنکھیں بند کر کے مراقبے کی
شکل میں بیٹھ کرنیت کرے کہ فیض روحانی نورانی لہروں کی شکل میں عرش معلی سے حضرت
محمدﷺ کے قلب مبارک سے ہوتا ہوا اس کے قلب میں داخل ہو رہا ہے۔۔ابتداء میں مراقبہ
کا وقت ایک گھنٹہ ہے اپنی کوتاہیوں کو یاد کرے اور اللہ کی رحمت کی طرف آس
لگائے۔کوئی گناہ ایسا نہیں جومعاف نہ ہو۔اللہ تمام کے تمام گناہمعاف کرنے پر قادر
ہے۔جیسا کہ ارشاد فرمایا ’’میری رحمت سے ناامید مت ہو‘‘صرف مانگنے اور رونے کی
ضرورت ہے۔ہو سکے تو کسی تنہائی،جنگل یا ویرانے میں مراقبہ کرے۔وہاں کا ذرہ ذرہ اور
پتہ پتہ اس کے لیے دعا کرے گا۔عورتيں اپنے کمرے کو بند کرکے مراقبہ کر سکتی ہیں۔اس
مراقبے کے مشاہدات بھی عجیب ہیں۔بعض اوقات نامہ اعمال سامنے کردیاجاتا ہے بعض
اوقات کعبہ پاک؛روضہء مبارک اور سرور کونین ﷺ کی زیارت نصیب ہو جاتی ہے۔جواس بات
کی علامت ہے کہ معافی ملنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس مراقبے میں تمام گناہ ایک
فلم کی شکل میں نظر آتے ہیں۔بعض اوقات انسان پریشان ہو جاتا ہے کہ اتنے گناہ میں
نے کئے ہیں۔مجھ جیسا گناہگار اس پوری کائنات میں نہیں ہے۔جب گناہوں کی فلم آنکھوں
کے سامنے چلتی ہے تو یہی موقع ہوتا ہے کہ ایک ایک غلطی کی معافی رو رو کر مانگ لی
جائے۔
*مرکز
فیض:*
لطیفہ قلب
*احساس:*
ٹھنڈک
*اثرات:*
پہلے مراقبہ
میں گناہوں کی بدبواور سڑاندھ روح میں محسوس ہوتی ہے اور گناہوں سے کراہت محسوس
ہوتی ہے اور انسان گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔اس مراقبے سے اپنی غلطیاں نظر
آتی ہیں اور ندامت کے آنسو بہانے کی توفیق ملتی ہے۔تمام نفسانی خواہشات و شہوات
اور شیطان مردود کی ڈالی ہوی تمام غلاظتوں سے رغبت ختم ہو جاتی ہے اور زندگی کی
اصلاح و تعمیر کا عمل شروع ہو جاتاہے۔یہ بنیادی مراقبہ ہے۔اس سے سینے کے سیاہ داغ
صاف ہو جاتے ہیں جو لطائف پرگردو غبار کی صورت میں جمع ہوتے ہیں۔تصفیہ قلب حاصل
ہوتا ہے اور تزکیہ باطن شروع ہو جاتا ہے۔روحانی مشاہدات نصیب ہوتے ہیں اور روحانی
بصیرت و بصارت حاصل ہو جاتی ہے۔
ہر وہ چیز جو
سنت کیخلاف ہے وہ گناہ ہے اور سنت رسول ﷺ اس فطری کردار کا اعلی ترین نمونہ ہے جو
پیغمبروں کے کردار میں مبعوث کر دی گئی ہے اور جس پر شیطان کو گندگی ڈالنے کی نہ
جرات ہوتی ہے اور نہ ہی اجازت ہے۔یہی فطرت ہر انسان میں موجود ہے۔جب لطائف کا زنگ
اترتا ہے تو فطری رنگ چمک اٹھتا ہے۔پھر کردار سازی اور تعمیر سیرت کے لیے لمبے
لمبے لیکچرز اور کتابیں پڑھنے کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ
فطرت خود
بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی
فیوض کی آمد
سے گردو غبارچھٹ جاتے ہیں اور کردار کا ماہتاب پوری آب و تاب سے جلوہ گرہو کر باقی
معاشرے کے لیے شمع نور اور اسوہء حسنہ بن جاتا ہے