وہ بابا ایک خستہ حال بیہوش عورت کو لیکر ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوا۔ جسکے ساتھ دو نو عمر بچے تھے۔ شکل و شباہت سے بھکاری لگ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے مریضہ کو دیکھا اور بولا۔
“اس بی بی کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ اگر فوری امداد نہ دی گئی تو یہ مر جائیگی۔ فوری علاج کیلئے خاصی رقم کی ضرورت ہے” سنتے ہی بچوں نے چیخنا شروع کر دیا۔ وہ شخص کبھی ڈاکٹر کو دیکھتا، کبھی مریضہ کو اور کبھی بچوں کو۔
کیا لگتی ہیں یہ آپ کی؟ ڈاکٹر نے اس شخص کو تذبذب میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔
کچھ نہیں۔ میں ٹیکسی چلاتا ہوں۔ اسے سڑک پہ لیٹے دیکھا، اسکے پاس بیٹھے یہ دونوں بچے رو رہے تھے۔ میں ہمدردی میں یہاں لے آیا ہوں۔ میری جیب جو ہے، دے دیتا ہوں. اس نے جیب سے جمع پونجی نکال کر میز پر رکھ دی ۔ ڈاکٹر نے پیسوں کیطرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا۔
بابا جی ! یہ بہت تھوڑے پیسے ہیں۔
بابا جی ! یہ بہت تھوڑے پیسے ہیں۔
ڈھیر سارے پیسے چاہئیں۔وہ بے بسی میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا۔ کبھی آسمان کیطرف دیکھتا کبھی دیواروں کیطرف۔ اچانک ایک چمک سی اسکے چہرے پر عیاں ہوئی۔
ڈاکٹر صاحب ! آپ اسکی جان بچائیں۔ یہ میری گاڑی کے کاغذات ضمانت ہیں۔ میں ابھی پیسے لیکر آتا ہوں۔
وہ چلا گیا۔ ڈاکٹر نے ابتدائی طبی امداد شروع کر دی۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ دو لوگوں کے ساتھ واپس آیا۔
ڈاکٹر صاحب! میں نے ٹیکسی بیچ دی ہے۔ آپ پیسوں کی فکر نہ کریں۔ اس نے گاڑی کے کاغذات ساتھ آنے والوں کو دیتے ہوئے کہا۔ صورت حال کو بھانپتے ہوئے، قریب کھڑا ایک خوش باش نوجوان پوچھنے لگا۔
کیا لگتی ہیں یہ خاتون آپکی؟؟؟
ڈاکٹر صاحب! میں نے ٹیکسی بیچ دی ہے۔ آپ پیسوں کی فکر نہ کریں۔ اس نے گاڑی کے کاغذات ساتھ آنے والوں کو دیتے ہوئے کہا۔ صورت حال کو بھانپتے ہوئے، قریب کھڑا ایک خوش باش نوجوان پوچھنے لگا۔
کیا لگتی ہیں یہ خاتون آپکی؟؟؟
میں نہیں جانتا کہ یہ کون ہیں۔ مگر کوئی رشتہ ضرور ہے جو مجھے اسکی زندگی اپنے روزگار سے زیادہ اہم لگی ہے۔ ٹیکسی کا کیا ہے، میں کرائے پہ لیکر چلا لوں گا۔ اگر یہ مر گئی تو یہ بچے بھی جیتے جی مر جائیں گے۔ قیامت کے روز اللّٰہ کو کیا منہ دکھاوں گا کہ مجھے ایک انسان کی زندگی سے زیادہ اپنی ٹیکسی عزیز تھی۔
ساتھ آنے والے پیسے گن رہے تھے اور ساری کہانی بھی سن رہے تھے۔
خوش شکل نوجوان گاڑی خریدنے والوں سے کہنے لگا کہ آپ اپنے پیسے واپس رکھ لیں، اسکی ٹیکسی اسی کے پاسہی رہنے دیں۔ علاج کے پیسے میں ادا کر دیتا ہوں۔
نہیں بابو ! سودا ہو گیا ہے۔اب ہم سودے سے مکریں گے نہیں- ہم ٹیکسی بھی نہیں لے جارہے اور پیسے بھی دے رہے ہیں۔ ٹیکسی کے لئے نہیں علاج کے لئے۔
دونوں شخص یک زبان بولے۔
دونوں شخص یک زبان بولے۔
یہ بڈھا تو پاگل ہو گیا ہے۔ اس عمر میں کون اسے کرائے پر ٹیکسی دے گا۔ ہم تو کمانے آئے تھے۔ یہ آدھی قیمت پر ٹیکسی بیچ رہا تھا۔ ہمیں دگنا منافع تھا۔ اب ہم ستر گنا منافع کمائیں گے۔ پیسے نہیں تو نہ سہی، نیکی ہی سہی۔
وہ پیسے میز پر رکھتے ہوئے اٹھے اور ڈاکٹر سے بولے
” ڈاکٹر صاحب ! اور ضرورت پڑے تو ہمیں اس نمبر پر کال کر دینا۔” اپنا کارڈ ڈاکٹر کو دیتے ہوئے ہسپتال سے باہر نکل گئے۔
ٹیکسی والا زار و قطار روئے جا رہا تھا۔ اور اس خوش شکل نوجوان سے کہے جا رہا تھا
بابو ! پیسے والے نیکی لے گئے اور میں غریب پھر خالی ہاتھ رہ گیا۔
بابو ! پیسے والے نیکی لے گئے اور میں غریب پھر خالی ہاتھ رہ گیا۔
کسی بھی عمل کا اجر نیت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک غریب شخص 1 روپیہ خرچ کرنے پر زیادہ اجر حاصل کر سکتا ہے، جبکہ ایک امیر شخص 10 روپے خرچ کرنے پر کم اجر پا سکتا ہے۔ یہ سب دل کی پاکیزگی اور عمل کی نیت کا معاملہ ہے۔