دعا کا تصور عام لوگوں کے ذہن میں تقریبا وہی ہے جو عاملین کے یہاں پر اسرار کلمات کا هوتا ہے- عامل یہ سمجهتے ہیں کہ فلاں فلاں الفاظ کسی خاص ترتیب یا خاص تعداد میں زبان سے ادا کر دئے جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ فلاں صورت میں برآمد هو گا- اسی طرح لوگوں کا خیال ہے کہ دعا الفاظ کے کسی مجموعہ کا نام ہے جس میں خاص تاثیرات چپهی هوئی ہیں- اگر آدمی دعا کے ان الفاظ کو صحیح تلفظ کے ساته ادا کردے تو اس کے نتیجہ میں وه تمام تاثیرات لازماً ظاہر هونا شروع هو جائیں گی-
مگر یہ خیال صحیح نہیں- دعا اپنی حقیقت کے اعتبار سے کسی خاص قسم کے لفظی مجموعہ کا نام نہیں ہے بلکہ ان کیفیات کا نام ہے جو احساس احتیاج کے تحت آدمی کے اندر پیدا هوتی ہیں اور پهر لفظوں کی صورت میں ڈهل جاتی ہیں-
قرآن میں بہت سے انبیاء اور صلحا کی دعائیں مزکور ہیں(مثلا حضرت موسی کی دعاء اصحاب کہف کی دعاء امراه فرعون کی دعا)یہ ثابت ہے کہ ان لوگوں کی زبان عربی نہیں تهی- انبیاء کے متعلق قرآن میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وه مختلف علاقوں میں آئے اور وه جہاں آئے وہیں کی مقامی زبان میں کلام کرتے تهے- اس سے ظاہر ہے کہ ان کی دعا اپنی مادری زبان (مقامی زبان) میں هوتی تهی نہ کہ عربی زبان میں- اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں ان کی دعا صرف معنا مزکور ہے نہ کہ لفظاً –
اسی طرح حدیث میں بہت سے انبیاء کی دعائیں مزکور ہیں مثلا حضرت عیسی کی یہ دعا جو انهوں نے اپنے ایک شاگرد کو سیکهائی: اے اللہ، مصیبت کو ہٹانے والے اور غم کو دور کرنے والے اور مجبور کی پکار کو سننے والے، دنیا اور آخرت کے رحمان اور رحیم، تو ہی دونوں کا رحمان و رحیم ہے پس تو مجهہ پر ایسی رحمت فرما جو مجهے تیرے سوا دوسروں سے مستغنی کر دے-
ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کی زبان عربی نہیں تهی اس لئے یقینی طور پر یہ دعا انهوں نے اس زبان میں بتائی جو ان کی اور حواریوں کی پیدائشی زبان تهی- حدیث میں یہ دعا اگر چہ عربی زبان میں نقل هوئی ہے مگر یہ نقل بالمعنی ہے نہ کہ نقل بالالفاظ-
الرسالہ، دسمبر 2000
مولانا وحیدالدین خان