“اے ارض وطن “
اے ارض وطن ھم تیرے لئے اک نظم لکھیں
تتلی کے پروں سے رنگ چنیں
ان سازوں سے آہنگ چنیں
جو روح میں بجتے رہتے ہیں
اور خواب بنیں ان پھولوں کے
جو تیری مہک سے وابستہ
ہر آنکھ میں سجتے رہتے ہیں
ہر عکس ہو جس میں لافانی
ہم ایسا اک ارژنگ چنیں
اور نظم لکھیں
وو نظم کے جس کے حرفوں جیسے حرف کسی ابجد میں نہیں
وو رنگ اتاریں لفظوں میں جو قوس و قزح کی زد میں نہیں
اور جس کی ہر اک سطر میں خوشبو ایسے لہریں لیتی ھو
جو وہم و گمان کی حد میں نہیں
اور جب یہ سب انہونی باتیں ان دیکھی ان چھوئی چیزیں
اک دوجے میں مل جائیں تو نظم بنے
اے ارض وطن، وو نظم بنے جو اپنی بُنت میں کامل ہو
جو تیرے روپ کے شایان ہو، اور میرے ہنر کا حاصل ہو
اے ارض اماں، اے ارض وطن
تو شاد رہے آباد رہے
میں تیرا تھا میں تیرا ہوں
بس اتنا تجھ کو یاد رہے
اس کشت و ہنر میں جو کچھ ہے،کب میرا ہے
سب تجھ سے ہے،سب تیرا ہے
یہ حرف و سخن یہ لوح و قلم
سب اڑتی دھول مسافت کی
سب جوگی والا پھیرا ہے
سب تجھ سے ہے، سب تیرا ہے
سب تیرا ہے …………
(امجد اسلام امجد )