حضرت مولانا الیاس ؒ جن کا انتقال ابھی حال ہی میں ہوا ہے، جماعت کی نماز پر کیسے بجان ودل فدا تھے، اس کا تھوڑا بہت اندازہ ان اقتباسات سے لگائیے جو *مولانا ابوالحسن علی صاحب ندوی نے* *’’مولانا الیاسؒ* اور ان کی دینی دعوت‘‘ نامی کتاب میں مرض الموت کے واقعات کے سلسلے میں لکھا ہے۔ فرماتے ہیں:
مارچ ۴۴ء میں ضعف بہت بڑھ چکا تھا، نماز بھی پڑھانے سے معذور تھے، لیکن جماعت میں دو آدمیوں کے سہارے تشریف لاتے تھے اور کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے۔ (ص: ۱۴۹)
اخیر میں جب حالت نازک ہوگئی تو اس وقت بھی مولانا موصوف نے جماعت ترک نہ فرمائی، بلکہ ہوتا یہ تھا کہ آپ کی چارپائی صف کے کنارے لگادی جاتی تھی اور آپ جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ (ص: ۱۶۸)
*⬅حضرت مولانا بشارت کریم ؒ گرھولوی* جو ضلع مظفر پور (بہار) میں ایک بڑے باخدا بزرگ گزرے ہیں، آپ کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کو پاؤں کی کوئی ایسی بیماری تھی جس کی وجہ سے چلنے سے بڑی حد تک مجبور تھے، مگر مولانا علیہ الرحمۃ کی شیفتگی جماعت کا یہ حال تھا کہ آپ نے ایک گاڑی بطورِ رکشا بنوا رکھی تھی، جس سے پنج وقتہ مسجد حاضر ہو کر باجماعت نماز پڑھتے تھے۔
مولانا منظور نعمانی اپنے پدر بزرگوار کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
نماز باجماعت کا اہتمام جیسا میں نے اپنے والد ماجد میں دیکھا، ایسا بہت ہی خاص بندگانِ خدا میں دیکھا گیا ہے۔ اور یہ صرف اپنے ہی حق میں نہ تھا، بلکہ ان کی پوری کوشش یہ ہوتی تھی کہ گھر کا ایک ایک آدمی، بلکہ ہر صاحبِ شعور بچہ بھی جماعت کے وقت مسجد پہنچ چکا ہو۔ نماز کا وقت شروع ہوتے ہی تقاضا فرمانا شروع کردیتے تھے، پھر جب مسجد کو جاتے تو راستے کے لوگوں کو یاد دلاتے جاتے۔ ادھر چند مہینوں سے آنکھوں میں پانی اتر آیا تھا اور بینائی تقریباً معدوم ہوگئی تھی، جس کی وجہ سے خود وقت کا اندازہ نہ فرما سکتے تھے، تو ظہر اور عصر میں بہت پہلے سے دریافت فرمانا شروع کردیتے تھے کہ بتلاؤ دروازہ کے سامنے سایہ کہاں تک گیا۔
میں نے اپنی طالب علمی کے زمانے میں جب میں مفتاح العلوم میں پڑھتا تھا، *حضرت الاستاذ مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی مدظلہٗ کے والد مرحوم* کو دیکھا کہ باوجود اپنے مختلف مشاغل اور ضعف وکبر سنی کے ہمیشہ اپنے محلے کی مسجد میں باجماعت نماز پڑھتے تھے، خود حضرت مولانا مدظلہٗ کو جب وہ مطالعہ میں مشغول رہتے کسی لڑکے سے بلواتے تھے، اسی طرح مولانا مدظلہٗ کے بچوں کو صبح تک کی نماز میں اپنے ساتھ لے جاتے۔
ضلع پورنیہ (بہار) کے *مولانا ظفر صاحب* کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ تو خود جماعت کے عاشق تھے ہی، ساتھ ہی یہ جذبہ اور جماعت کی ایسی اہمیت تھی کہ وہ عوام کو ترغیباً یہ مسئلہ بتاتے تھے کہ منفرد کی فرض نماز، نماز ہی نہیں، ہوتی۔ بغیر عذرِ شرعی مسجد کی غیر حاضری پر بہت خفا ہوتے، کوئی ان سے تعویذ لینے آتا تو اس سے باجماعت نماز کے متعلق دستاویز لکھوا کر دیتے تھے۔
*یہ ہیں ہمارے اسلاف اور ہمارا حال تو یہ ہیں کہ جماعت تو درکنار نماز میں ہی حاضری نہیں ہوپاتی عوام صفوں میں علماء کو تلاش کرتے ہیں*
*حوالہ۔۔۔۔۔(اسلام نظام مسجد)*
*✦✦ابو محمد الفیضانی احمدآباد گجرات✦✦*