. . .
ابن ماجہ کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ روز قیامت ایسے لوگ آئیں گے جن کے اعمال پہاڑوں جتنے ہوں گے لیکن انہیں اڑا دیا جائے گا کیونکہ یہ لوگ تنہائی میں اللہ کی نا فرمانی میں مشغول رہتے تھے.
ویسے تو ہر دور میں خلوت ( تنہائی ) کی پاکیزگی کا مجاہدہ ایک مشکل چیز رہا ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایک فرمان میں اسے مشکل ترین امور میں شمار کیا گیا ہے لیکن آج کے دور میں انٹرنیٹ نے اس مجاہدے کو مشکل ترین بنا دیا ہے.بسا اوقات اسلامی صفحے پر بھی انسان کے جنسی جذبے کو تحریک دینے کا مواد موجود ہوتا ہے.
یوسف بن حسین ایک صوفی بزرگ ہیں. فرماتے ہیں کہ تقوی یہ ہے کہ انسان کے دل میں جو کچھ ہے اسے کسی پلیٹ میں ڈال کر سر بازار پھرایا جائے تو رسوائی نہ ہو .
آج کے دور میں انسان کی انٹرنیٹ براؤزنگ ہسٹری پر اس قول کا اطلاق ہو سکتا ہے.
انٹرنیٹ بہت بڑی نعمت ہے جو تعلیم و تعلم اور علم و تحقیق کے لیے ایک مسیحا ہے لیکن اس کے سلبی (منفی) پہلو پر اپنی پوری ہمت استعمال کر کے توجہ دینا ناگزیر ہے. حدیث میں ایک دعا ہے کہ یا اللہ میرے باطن کو میرے ظاہر سے اچھا بنا دے.
باطن میں یہ مضبوطی اللہ کی کتاب سے صحیح تعلق، ذکر و مناجات اور نیک صحبت سے پیدا ہوتی ہے.
حضرات صحابہ ایمان کے بارے میں بہت فکرمند لوگ تھے. ان کے اور صالحین امت کے تذکرے بھی ہمت کو جلا دیتے ہیں.
۰مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابن مسعود رض کا فرمان ہے کہ
اگر مجھے یہ پتا چل جائے کہ زندگی کی ایک رات باقی ہے تو میں چاہوں گا کہ اس میں بھی بیوی ساتھ ہوں .
یہ اس احتیاط کی طرف اشارہ ہے کہ جنسی جذبے کے سامنے انسان نہایت کمزور واقع ہوا ھے.
پسند فرمودہ
مولانا عبدالرحمن مياں حفظه الله.