جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جاء ھے تماشہ نہیں ہے
جہاں میں ہیں عبرت کے ہر سُو نمونے
مگر تجھ کو اندھا کیا رنگ و بُو نے
کبھی غور سے بھی دیکھا ہے تو نے
جو معمور تھے وہ محل ہیں اب سُونے
ملے خاک میں اہلِ شاں کیسے کیسے
مکیں ہو گٔیٔے لا مکاں کیسے کیسے
ھؤے ناموَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گٔیٔ نوجواں کیسے کیسے
اجل نے ہے چھوڑا نہ کسریٰ نہ دارا
اسی سے سکندر سا فاتح بھی ہارا
ہر ایک چھوڑ کے کیا حسرت سدھارا
پڑا رہ گیا سب یہیں کھاٹ سارا
تجھے پہلے بچپن میں برسوں کھلایا
جوانی میں پھر تجھ کو مجنوں بنایا
بڑھاپے نے پھر آ کے کیا کیا ستایا
اجل تیرا کر دے گی بالکل صفایا
یہی تجھ کو دھُن ھے رہُوں سب سے بالا
ہو زینت نرالی ہو فیشن نرالا
جیا کرتا ہے کیا یونہی مرنے والا؟
تجھے حسنِ ظاہر نے دھوکے میں ڈالا
وُہ ھے عیش و عشرت کا کؤی محل بھی؟
جہاں ساتھ میں کھڑی ہو اجل بھی
بس اب اس جہالت سے تُو نکل بھی
یہ طرزِ معیشت اب اپنا بدل بھی
یہ دنیأے فانی ہے محبوب تجھ کو
ہؤی واہ کیا چیز مرغوب تجھ کو
نہی عقل اتنی بھی مجزوب تجھ کو
سمجھ لینا چاہیے اب خوب تجھ کو
بڑھاپے میں پا کے پیامِ قضا بھی
نہ چونکا نہ چیتا نہ سمبھلا ذرا بھی
کؤی تیری غفلت کی ہے انتہا بھی؟
جنون چھوڑ کر اپنے ہوش آ بھی
جب اِس بزم سے دوست چل دیے اکثر
اور اُٹھے چلے جا رہے ہیں برابر
ہر وقت پیشِ نظر ہے یہ منظر
یہاں پر تِرا دل بہلتا ہے کیونکر
جہاں میں کہیں شورِ ماتم بپا ہے
کہیں فِکر و فاقہ سے آہ و بکا ہے
کہیں شکوہ جور و مکر و دغا ہے
ہر ہر طرف سے بس یہی صدا ہے
جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے
یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے