آئیں تھوڑا غور کریں……
پچھلی نشست کے آخر میں قرآن پاک کی آیت ” جاء الحق و زھق الباطل” کی بات کی تھی کہ قرآن کریم میں ہے جب حق آئے گا
تو باطل دب جائے گا مغلوب ہو جائے گا اور حق غالب آئے گا لیکن آج کا مشاہدہ ہے کہ باطل غالب ہے اور ہم مغلوب ہیں تو بنیادی طور پر دو سوال زہن میں آتے ہیں کہ
کیا ہم مسلمان اور اسلام حق نہیں ہے؟
اگر ہم مسلمان حق ہیں تو قرآن مجید کی آیت ” جاء الحق وزھق الباطل” کا کیا مطلب کیا ہے ہم غالب کیوں نہیں ہیں؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ دین اسلام ہی حق ہے اسلام نے انسان کو ترقی اور کامیابی دی ہے اسلام کی تعلیمات سے پہلے انسان موجود تھا بلکہ تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ آج کے انسان سے کئی گنا زیادہ طاقتور، ذہین اور قد آور انسان تھے لیکن اتنی ترقی، کامیابی حاصل نہیں تھی اگرچہ انہوں نے زمین کے مختلف خطوں پر ایسی ایسی عمارتوں کو بنایا جسے آج بھی کوئی دیکھے تو ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اللہ اللہ کیسے انسان پیدا کیے جنہوں نے پتھروں کو کاٹ کر عجیب عمارتیں کھڑی کی ہیں مصر میں فرعون کے محلات فلسطین میں سابقہ قلعے عرب کے صحرا میں مختلف مقامات پر بغیر کسی مشنری کے انسان نے اپنی قوت و ذہانت کے عجیب نقش چھوڑے ہیں لیکن جتنی ترقی اسلامی تعلیمات کے بعد انسان نے کی ہے اس ترقی کے سامنے سابقہ انسان کی ترقی نہ ہونے کے برابر ہے آج کی ہماری سہولیات کا ان کو پتہ چل جائے تو وہ حیرت سے دیوانہ ہو جائیں فرعون جو بڑے عیش و آرام سے رہتا تھا اسے معلوم پڑھ جائے کے 2021 کے ایک عام انسان کے پاس میرے تخت سے کئی گنا زیادہ آرام دہ صوفہ اس کے ڈرائنگ روم میں رکھا ہے، کئی گنا آرام سے کھاتے پیتے اور سوتے ہیں لڑائی کے لیے اس سے کئی گنا بہتر ہتھیار موجود ہیں جو فقط ایک بٹن دبانے پر تباہی پھیلانے والے ہیں،
قارون کو معلوم پڑھے کہ جس دولت کو سمبھالنے کے لیے میں نے نوکر اور چابیاں اٹھانے کے لیے کئی ایک خچر رکھے ہوئے ہیں لیکن 2021 میں کچھ انسانوں کے ATM کارڈ جو انکی جیب کے ایک طرف پڑھے ہیں میرے مال و دولت سے کئی گنا زیادہ مالیت رکھتے ہیں تو حیرت سے پاگل ہو جائے.
تو یہ جتنی بھی ترقی اور ٹیکنالوجی ہے یہ اسلام اور قرآن پاک کی مرہون منت ہے.
جب یہ بات سمجھ آ گئی کہ اسلام ہی حق ہے تو اب سوال یہ ہے کہ مسلمان غالب کیوں نہیں ہیں؟
*تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا دار الاسباب ہے اس دنیا میں جو صحیح اسباب کو اختیار کرے گا کامیابی اسے ملے گی* اس کے ضروری ہے امن، اخوت اور مضبوط تجارت ہو.
ایک تندرست معاشرہ کے لیے ضروری ہے کہ اسکی تجارت مضبوط ہو
معاشرہ پرامن ہو،
باہمی اخوت ہو
اب میں اور آپ نے غور یہ کرنا ہے کہ کیا ہماری تجارت ٹھیک ہے، کیا ہم پورا تولتے ہیں؟ کیا ملاوٹ نہیں کرتے ہیں؟ کیا دھوکہ دہی نہیں کرتے ہیں؟ کیا سچ بولتے ہیں؟ کیا حقوق ادا کرتے ہیں؟ کیا دوسروں کے لیے وہی پسند کرتے ہیں جو اپنے لیے پسند کرتے ہیں؟ کیا رشوت دیتے اور لیتے نہیں؟ کیا اپنے سے نیچے والوں پے ظلم نہیں کرتے؟
یہ باتیں غور کرنے اور سوچنے کی ہیں اور یاد رکھیں جس قوم میں تین چیزیں ہوں وہ کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتی ہے
*ظلم، جھوٹ، بددیانتی،*
یہ تین جب ہوں تو ناکامی یقینی ہے.
اگلی نشست میں بات کریں گے کہ ہم کیسے اپنے آپ کو ٹھیک کر سکتے ہیں، ہمارا نظام تعلیم اسکی بنیادی وجہ ہے……. جاری ہے