ابن آدم دن رات تین طرح کےامتحان سے گزرتاہے
لیکن وہ ان میں سے کسی ایک سے بھی سبق حاصل نہیں کرتاہے
پہلا امتحان
اسکی عمر روزانہ
کم ہو رہی ہے
اور وہ دن جو اسکی عمرسےکم ہو جاتاہے وہ اسکی پرواہ بھی نہیں کرتا
اور جب اسی (شخص )کے مال میں کچھ کمی ہو جاتی ہےتواسکے لیےفکرمند ہوتا ہے
جبکہ مال واپس آجاتاہے
اور عمر واپس نہیں اتى .
دوسرا امتحان
ہر روز وہ اللہ کاعطاکردہ
رزق کھاتاہے
اگر تووہ حلال ہےتو
اس کے بارے میں سوال ہو گا
اور اگر حرام ہےتواس پرسزادیا جاۓ گا
اور وہ حساب کےانجام
سے ناواقف ہے
تیسرا امتحان
ہر روز وہ کسی قدر
آخرت سےقریب ہو جاتاہے
اور( اس )دنیا سے قدرے دور ہو جاتاہے
اس کے باوجود وه باقی رہنے والی آخرت کےلیے اتنی فکرنہیں کرتا جتنی اس فانی دنیا کی پرواہ کرتاہے
جبکہ ابھی وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ اسکا لوٹنا اعلی جنت کی طرف
ہو گايا آگ کی پستی وگہرائ میں..
یا اللہ ہمارے لیے( اس ) دنیا کو سب سے بڑا غم نہ بنانا نہ ہی علم کے حصول کا مقصد اور نہ ہی ہمارے لیے آگ کی طرف جانے کا ذریعہ
اور بنادے ہمارے لیے جنت
ہی ہمارا گھر
دنیا میں سے جو کچھ بھی جمع ہوجاۓ اور تمام خواہشات بھی پوری ہو جائیں تو تم اس سے زیادہ خوبصورت خواہش نہیں پاو گے جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے (خواہش) کی تھی کہ
توفني مسلماً
وألحقني بالصالحين
اے اللہ ! مجھے فوت کرنا اس حال میں کہ
میں مسلم فرمانبردار ہوں
اورمجھےصالحین کاساتھ دےدے…..
آمین یا رب العالمین