کیسے کر لیتی ہیں آپ پابندی سے صبح شام ذکر ۔۔۔ ہم سے تو نہیں ہوتا بھابھی جان۔
آپ کے بھی وہی سب کام ہیں جو ہمارے ہوتے ہیں پھر ہمیں کیوں نہیں وقت ملتا؟ ہم سے کیوں نہیں ہوتا؟ آپ کیسے کر لیتی ہیں یہ سب؟ کتنا سکون ہوتا ہے آپ کے چہرے پر. کیسی محبت مترشح ہورہی ہوتی ہے جب آپ تسبیحات کر رہی ہوتی ہیں- سچ کہتی ہوں بھابی ہم تو تسبیح لے کر بیٹھتے بھی ہیں تو ذہن مستقل ادھر ادھر ہی لگا رہتا ہے. وہ محبت اور توجہ ہوتی ہی نہیں ہے اللہ کے ذکر کی طرف جو دلوں کو سکون و اطمینان سے بھر دے، عجیب بے کلی سی رہتی ہے –
آپ کو کیا بتاؤں بھابھی جان کتنا جی چاہتا ہے جب قرآن و حدیث میں اللہ کے ذکر کے اتنے فضائل پڑھتے، سنتے ہیں مگر جب کرنے بیٹھتے ہیں تو نہ جانے طبیعت کیوں اکتانے لگتی ہے؟؟ عجیب مخمصہ ہے بھابی جان –
کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ “اللہ کا ذکر کرنا اللہ سے محبت کی دلیل ہے.” میں کئی بار تنہائی میں سوچتی ہوں کہ کیا مجھے اپنے رب سے محبت نہیں ہے؟ میں ذکر کرنا بھی چاہتی ہوں اور پھر کر نہیں پاتی….!!
شافعہ بھابی اپنی دیورانی سمیرا کی بات سن کر ملائمت سے مسکرانے لگیں.
دراصل بات یہ ہے سمیرا کہ ساری بات یقین کی ہے – پہلے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا تھا. جب میں درس میں جایا کرتی تھی اور ہماری باجی ہمیں صبح و شام کے اذکار اور مسنون دعاؤں کے فضائل بتایا کرتی تھیں، میں صبح و شام کی دعائیں اور دیگر مواقع کی مسنون دعائیں تو پڑھ لیا کرتی تھی. مگر باقاعدہ وقت نکال کر کچھ دیر یکسوئی کے ساتھ اللہ تعالٰی کا ذکر کرنا، تسبیحات پڑھنا، درود شریف اور استغفار پڑھنا میرے لیے بھی مشکل ہو جایا کرتا تھا. یقین کرو یہی کیفیت میری بھی ہوتی تھی جو آج تم کہہ رہی ہو. نفس اور شیطان بہت بہکاتے تھے. طرح طرح کے خیال آتے تھے دل میں،،، اور بھی بہت کام ہیں دنیا میں، فرائض پر توجہ دو، گھر بار دیکھو، بچوں کی پرورش کرو… ارے یہ تو نفل عبادت ہے، بعد میں کر لینا، زندگی پڑی ہے بڑھاپے میں یہی کچھ کرنا ہے، بس ایک طرف بیٹھ کے خوب اللہ اللہ کرنا… ابھی تو کچھ اور کر لو، چلو وقت ہے تو ذرا بچوں کے لیے کچھ میٹھا تیار کر دو. نہیں تو کچھ سینا پرونا کر لو. چلو کوئی اچھی سی کتاب پڑھ لو… بازار کا چکر لگا لو…
“ذکر” کا کیا ہے وہ تو چلتے پھرتے بھی کر سکتا ہے انسان.
ہیں ناں سمیرا یہی باتیں ذہن میں آتی ہیں ناں…؟؟؟
بالکل بھابی جان بالکل یہی…!! ایسا ہی ہوتا ہے میرے ساتھ بھی. کیا کروں بھابھی جان کچھ سمجھ نہیں آتا آپ بتائیے ناں آپ نے کیسے اپنی اس کیفیت پر قابو پایا؟ سمیرا بے چینی سے بولی –
بتاتی ہوں پیاری بہنا! شافعہ بھابی محبت سے بولیں –
دیکھو بات یہ ہے کہ نیک بننے کے لیے نیکوں کی صحبت میں بھی رہنا پڑتا ہے.
اللہ نے فرمایا ہے نا قرآن مجید میں:
*کونوا مع الصادقين.*
“سچوں کے ساتھ رہو.”
انسان نیکی پر گرفت تب ہی پاتا ہے جب اسے نیک لوگوں کا ساتھ بھی میسر ہو. ورنہ دین و شریعت کی کوئی بات پتا چلتی ہے ایک دو دن کا جوش ہوتا ہے، عمل کر لیتے ہیں اور پھر زندگی اسی لگی بندھی روٹین پر چلنے لگتی ہے. اس لیے میں باقاعدگی سے ہر ہفتے درس میں جاتی ہوں تاکہ اللہ کے ذکر کی محفلوں سے ربط بنا رہے. یاددہانی ہوتی رہے. درس میں آنے والی سب بہنیں ایک دوسرے کے اعمال کی خبرگیری کرتی رہتی ہیں تو ایک دوسرے کو دیکھ کر شوق بھی بنا رہتا ہے –
پہلے پہل صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کے لیے اعمال کرتے تھے اور اس وقت بہت مشقت اٹھانی پڑتی تھی کیونکہ بار بار جی چاہتا تھا بس رہنے دو، کل سے کر لیں گے، آج تو بہت کام ہیں طبیعت بھی ٹھیک نہیں، بچے بھی تنگ کر رہے ہیں…. مگر میں نے اپنی مستقل مزاجی اور دعاؤں سے نفس کو ہرا دیا –
دل لگے نہ لگے بس اللہ کا ذکر کرنا ہے، اور خوب دعائیں مانگتی تھی اللہ تعالٰی سے یارب! میری مشکل آسان کر، مجھے اپنے ذکر سے رطب اللسان کر دے – مجھے صبح و شام پابندی سے ذکر کرنے کی توفیق عطا فرما – (کوشش کے ساتھ ساتھ ہر نیک عمل کی توفیق اللہ ہی سے مانگنی چاہیے)
اور پھر میرا دل مانوس ہوتا چلا گیا اللہ کے ذکر کے ساتھ. اب تو بغیر ذکر کیے چین ہی نہیں آتا.
لیکن صبح و شام پابندی سے کیوں بھابی جان؟ انسان کسی بھی وقت ذکر کر سکتا ہے. سمیرا بولی –
اری نادان! اللہ توفیق دے تو جس وقت چاہے انسان ذکر کر لے بلکہ ضرور کرنا چاہیے کیونکہ جنت میں جا کر بھی انسان کو اس وقت پر افسوس ہوگا جو دنیا میں اللہ کے ذکر کے بغیر گزر گیا. لیکن صبح و شام کرنے کی فضلیت یہ ہے کہ احادیث میں کثرت سے ان دو وقتوں میں اللہ کے ذکر کے فضائل وارد ہوئے ہیں اور قرآن مجید میں بھی ان لوگوں کا ذکر ہے جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں –
اللہ تعالٰی چاہتے ہیں کہ ہم ان دو وقتوں میں اپنے رب کو یاد کریں، محبت سے اس کا ذکر کریں – کلام مجید کی تلاوت کریں .اللہ کی پاکی اور بڑائی بیان کریں، اپنے گناہوں پر استغفار کریں. اس کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجیں… تو کیا ہم اپنے رب کی محبت میں جو ہمیں اس قدر نعمتوں سے نوازتا ہے، ذرا سا وقت مخصوص کر کے اسے یاد نہیں کر سکتے؟ اس کا ذکر نہیں کر سکتے؟ جس میں کہ فائدہ بھی اپنا ہی ہے کہ ساتھ ہی رب العالمين نے ہماری کفایت کا وعدہ کیا –
اور پتا ہے سمیرا ! جب میں درود شریف پڑھتی ہوں ناں تو مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے واقعی اللہ کی رحمت مجھ پر برس رہی ہے. اللہ کی رحمت نے مجھے ڈھانپ لیا ہے. میرے گناہ مجھ سے جھڑ رہے ہیں اور جنت میں میرے درجات بلند ہو رہے ہیں –
اور جب میں تسبیح و تہلیل پڑھتی ہوں تو اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان عالیشان میری آنکھوں میں گھومنے لگتا ہے :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
*“سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَکْبَرُ” کہنا میرے نزدیک ہر اس چیز سے محبوب ہے جس پر سورج طلوع ہوتا ہے۔*
(صحيح مسلم 2346)
ہر وہ چیز جس پر سورج طلوع ہوتا ہے… یعنی اس دنیا کی ہر ہر چیز، اس کی ہر بھلائی جو ہمیں پسند ہے، ہر چیز سے بڑھ کر اللہ کے محبوب نبی کو ان کلمات کا پڑھنا زیادہ محبوب تھا –
تو سوچو ذرا… ہمیں دنیا میں کیا کیا پسند ہے؟ کونسی ہماری محبوب چیزیں ہیں؟ خواہشیں ہیں جنھیں ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں؟؟؟ بتاؤ سمیرا تمہیں کیا اچھا لگتا ہے؟ شافعہ بھابی نے سمیرا سے پوچھا…
اور سمیرا تو ایک دم ہی شروع ہو گئی… بھابھی جان! میرا تو جی چاہتا ہے میرا حسن و جمال بے مثال ہو، میرا گھر انتہائی خوبصورت اور عالیشان ہو. میرے بچے اور شوہر ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہوں، میری صحت قابلِ رشک ہو، مجھ پر کبھی موٹاپا نہ آئے، جب تک جیوں بڑھاپا نہ آئے – – – –
دنیا کے ہر پُر فضا مقام پر میرا گھر ہو جب جہاں جی چاہے میں رہ سکوں – ہر سال نئے ماڈل کی گاڑی ہو میرے پاس، زیور کپڑے کی فراوانی ہو. کبھی کسی چیز کی کمی نہ ہو- دوست، رشتہ داروں میں ہردلعزیز ہوں، بچے میرے فرمانبردار ہوں…… اور… اور… بھابی جان میں آپ کو کیا کیا بتاؤں کہ میری کیسی کیسی خواہشات ہیں. اور جانے مجھے کیا کچھ پسند ہے سمیرا نے ایک طویل ٹھنڈی سانس لی اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا لی –
اور یہ سب کچھ تمہیں مل جائے تو…؟؟؟
ہائے اللہ بھابھی جان! اگر یہ سب کچھ مل جائے تو میں مر ہی نہ جاؤں خوشی سے….. یہ تو تصور ہی اتنا حسین ہے، سوچ کر ہی اس قدر خوشی ہورہی ہے کہ بتا نہیں سکتی –
تمہیں کچھ بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے سمیرا، تمہارا چہرہ سب کچھ بتا رہا ہے. شافعہ بھابھی نے محبت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا اور پھر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، دیکھو اب ان کلمات کی قیمت کا تم خود ہی اندازہ لگا لو کہ دنیا کی ساری چیزیں انسان کو مل جائیں تو ایک طرف اور ان کلمات کا ایک مرتبہ پڑھ لینا دوسری طرف…
اگر یہ سب کچھ تمہیں مل بھی جائے سمیرا تو بھی تمہارا ایک مرتبہ ان “کلمات” کو پڑھ لینا دنیا کی ان ساری چیزوں سے افضل ہے-
*کیونکہ دنیا میں انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے وہ سب فانی ہے، سب کچھ یہیں رہ جائے گا موت کے ساتھ ہی ہر چیز کا خاتمہ ہوجائے گا. انسان اس دنیا سے اکیلا جائے گا اپنی ساری من پسند چیزیں یہیں چھوڑ کر… مگر ان کلمات کا اجر و ثواب ہمیشہ ساتھ رہے گا… ہمیشہ ہمیشہ…*
اور آخرت کے درجات بڑھانے کا سبب بنے گا. وہاں کی نعمتیں پائیدار ہیں، ہمیشہ رہنے والی ہیں، انھیں کبھی زوال نہیں. بلکہ ہر لمحہ ان نعمتوں میں آسائشوں میں اضافہ ہوتا رہے گا- شافعہ بھابھی بہت جذب اور یقین سے بولیں –
اب سمجھ میں آیا ہے بھابی جان! جب ہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ کلمات اتنے پیارے تھے –
اب تو مجھے بھی ان کلمات سے محبت سی محسوس ہو رہی ہے، جی چاہ رہا ہے جلدی سے تسبیح لے کر پڑھنا شروع کردوں –
سبحان اللہ!
الحمد للہ!
اللہ اکبر!
لا الہ الا اللہ!
یہی تو بات ہے سمیرا کہ دراصل ہم کبھی سوچتے ہی نہیں ہیں. فضائل پر غور ہی نہیں کرتے کہ اللہ کا ذکر کتنی بڑی دولت ہے-
اللہ نے قرآن میں فرمایا:
*ولذکر اللہ اکبر*. اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے –
اور حدیث میں آتا ہے بہت سے لوگ نرم نرم بستروں پر اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور آخرت کے بلند درجات کو پا لیتے ہیں – یعنی یہ اتنی آسان سی چیز ہے کہ انسان آرام سے اپنے بستر پر لیٹ، بیٹھ کر بھی اللہ کی یاد میں مشغول ہو تو یہ چیز اس کے درجات کو بلند کرنے والی ہے-
اور دیکھو اب تو ویسے ہی رمضان کا بابرکت مہینا شروع ہونے والا ہے تو ہمیں ابھی سے ذکر کی عادت ڈال لینی چاہیے تاکہ رمضان کی کوئی گھڑی اللہ کی یاد سے غافل نہ گزرے –
_*اے ایمان والو! تم اللہ کا خوب کثرت سے ذکر کیا کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرتے رہو*_ (أحزاب. ع. 5)
ولذکر اللہ اکبر