تفسیر ابن کثیر اور مظہری میں بروایت محمد بن اسحاق و امام احمد و ابن جریرؒ وگیرہ نہ نقل کیا گیا ہے کہ جب مدینہ طیبہ سے آنے والے انصار کا مسلمان ہوجانا مکہ میں مشہور ہوا تو قریش مکہ کو یہ فکر دامنگیر ہوگئی کہ اب تک تو ان کا معاملہ صرف مکہ میں دائر تھا جہاں ہر طرح کی قوت ہمارے ہاتھ میں ہے اور اب جب کہ مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا اور بہت سے صحابہ کرامؓ ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچ گئے تو اب ان کا ایک مرکز مدینہ طیبہ قائم ہوگیا جہاں یہ ہر طرح کی قوت ہمارے خلاف جمع کرسکتے ہں اور پھر ہم پر حملہ آور ہوسکتے ہیں۔ اور ان کو یہ بھی احساس ہوگیاکہ اب تک تو کچھ صحابہ کرامؓ ہی ہجرت کر کرے مدینہ طیبہ پہنچے ہیں اب یہ بھی قوی امکان ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) بھی وہاں چلے جائیں اس لئے رؤساء مکہ نے مشورہ کے لئے دارالندوہ میں ایک خاص مجلس طلب کی۔ دار الندوہ مسجد حرام کے متصل قصی بن کلاب کا مکان تھا جس کو ان لوگوں نے قومی مسائل مین مشورہ اور مجلس کرنے کے لئے مخصوص کر رکھا تھا اور زمانہ اسلام میں اُس کو مسجد حرام میں داخل کر لیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ باب الزیادات ہی وہ جگہ تھی جس کو دار الندوہ کہا جاتا تھا۔
حسبِ عادت اس مہم مشورہ کے لئے قریشی سرداروں کا اجتماع دار الندوہ میں ہوا جس میں ابو جہل۔ نضر بن حارث، عتبہ، شیبہ، امیہ بن خلف، ابوسفیان وغیرہ قریش کے تمام نمایاں اشخاص شامل ہوئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت کے مقابلہ کی تدبیریں زیرِ غور آئیں۔
ابھی مشورہ کی مجلس شروع ہی ہوئی تھی کہ ابلیس لعین ایک سن رسیدہ عربی شیخ کی صورت میں دارالندوہ کے دروازہ پر آکھڑا ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ تم کون ہو کیوں آئے ہو۔ بتلایا کہ میں نجد کا باشندہ ہوں مجھے معلوم ہوا کہ آپ لوگ ایک اہم مشورہ کر رہے ہیں تو قومی ہمدردی کے پیش نظر میں بھی حاضر ہوگیا کہ ممکن ہے میں کوئی مفید مشورہ دے سکوں۔
یہ سن کر اس کو اندر بلالیا گیا اور مشورہ شروع ہوا توابو البکتری ابن ہشام نے یہ مشورہ پیش کیا کہ ان کو یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آہنی زنجیروں میں قید کر کے مکان کے دروازہ بند کر دیا جائے اور چھوڑ دیا جائے یہاں تک کہ معاذ اللہ وہ آپ اپنی موت مرجائیں۔ یہ سن کر شیخ نجدی ابلیس لعین نے کہا کہ یہ رائے صحیح نہیں۔ کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو معاملہ چھپے گا نہیں بلکہ اس کی شہرت دور دور پہنچ جائے گی اور ان کے صحابہ اور رفقاء کے فدئیانہ کارنامے تمھارے سامنے ہیں بہت ممکن ہے کہ یہ لوگ جمع ہو کر تم پر حملہ کریں اور اپنے قیدی کو تم سے چھڑالیں۔ سب طرف سے آوازیں، اُٹھیں کہ شیخ نجد کی بات صحیح ہے اس کے بعد ابو الاسود نے یہ رائے پیش کی کہ ان کو مکہ سے نکال دیا جائے یہ باہر جا کر جو چاہیں کرتے رہیں۔ ہمارا شہر ان کے فساد سے مامون ہوجائے گا۔ اور ہمیں کچھ جنگ و جدال بھی کرنا نہ پڑے گا۔
شیخ نجدی یہ سن کر پھر بولا کہ یہ رائے بھی صحیح نہیں، کیا تمھیں معلوم نہیں کہ وہ کیسے شیریں کلام آدمی ہیں لوگ ان کا کلام سن کر مفتون اور مسحور ہوجاتے ہیں۔ اگر اُن کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا تو بہت جلد اپنی طاقتور جماعت بنالیں گے اور تم پر حملہ کر کے شکست دے دیں گے۔ اب ابو جہل بولا کہ جو کرنے کا کام ہے تم میں سے کسی نے نہیں سمجھا۔ میری سمجھ میں ایک بات آئی ہے وہ یہ کہ ہم عرب کے سب قبیلوں میں سے ہر قبیلہ کا یاک نوجوان لے لیں اور ہر ایک کو عمدہ کام کرنے والی تلوار دے دیں۔ یہ سب لوگ یکبارگی اُن پر حملہ کر کے قتل کردیں۔ ہم ان کے فساد سے تو اس طرح نجات حاصل کر لیں۔ اب رہا اُن کا قبیلہ بنو عبد مناف کا مطالبہ جو ان کے قتل کا سبب ہم پر عائد ہوگا سو ایسی صورت میں جب کہ قتل کسی ایک نے نہیں بلکہ ہر قبیلہ کے ایک ایک شخص نے کیا ہے تو قصاص یعنی جان کے بدلے جان لینے کا مطالبہ تو باقی نہیں رہ سکتا۔ صرف خون بہایا دیت کے مال کا مطالبہ رہ جائے گا وہ ہم سب قبیلوں سے جمع کر کے اُن کو دے دیں گے اور بے فکر ہوجائیں گے۔
شیخ نجدی ابلیس لعین نے یہ سن کر کہا کہ بس رائے یہی ہے اور اس کے سوا کوئی چیز کارگر نہیں۔ پوری مجلس نے اسی کے حق میں رائے دے دی اور آج ہی رات میں اپنا یہ ناپاک عزم پورا کرنے کہ تہیہ کر لیا گیا۔
مگر انبیاء علیہم السلام کی غیبی طاقت کو یہ جاہل کیا سمجھ سکتے تھے۔ دوسری طرف جبرائیل امین نے ان کے دارالمشورہ کی ساری کیفیت سے رسول اللہ صلی اللی علیہ وسلم کو باخبر کر کے یہ تدبیر بتلائی کہ آج رات میں آپ اپنے بسترے پر آرام نہ کریں اور بتلایا کہ اب اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکہ سے ہجرت کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
ادھر مشورہ کے مطابق شام ہی سے قریشی نوجوانوں نے سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کا محاصرہ کر لیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ، کو حکم دیا کہ آج کی رات وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بسترے پر آرام کریں اور یہ خوشخبری سنا دی کہ اگرچہ بظاہر اس میں آپ کی جان کا خطرہ ہے مگر دشمن آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔
حضرت علی مرتضیؓ نے اس کام کے لئے اپنے آپ کو پیش کردیا اور آپ کے بستر پر لیٹ گئے مگر اب مشکل یہ درپیش تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس محاصرہ سے کیسے نکلیں۔ اس مشکل کو اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ کے ذریعہ حل کیا وہ یہ کہ بامر الہٰی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مٹھی میں مٹی بھر کر باہر تشریف لائے اور محاصرہ کرنے والے جو کچھ آپ کے بارہ میں گفتگو کر رہے تھے اُس کا جواب دیا مگر اللہ تعالیٰ نے ان کی نظروں اور فکروں کو آپ کی طرف سے پھیر دیا کہ کسی نے آپ کو نہ دیکھا حالانکہ آپ ان میں سے ہر ایک کے سر پر خاک ڈالتے ہوئے نکلے چلے گئے۔ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد کسی انے والے نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کیوں کھڑے ہو تو انھوں نے بتلایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے انتظار میں۔ اس نے کہا کہ تم کس خام خیالی میں ہو وہ تو یہاں سے نکل کر جا بھی چکے ہیں اور تم میں سے ہر ایک کے سر پر خاک ڈالتے ہوئے گئے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے سروں پر ہاتھ رکھا تو اس کی تصدیق ہوئی کہ ہر ایک کے سر پر مٹی پڑی ہوئی تھی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے بستر پر لیٹے ہوئے تھے مگر محاصرہ کرنے والوں نے ان کے کروٹیں بدلنے سے پہچان لیا کہ یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نہیں اس لیے قتل پر اقدام نہیں کیا۔ صبح تک محاصرہ کرنے کے بعد یہ لوگ خائب و خاسر ہو کر واپس ہوگئے۔ یہ رات اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا حضرت علی مرتضیؓ کے خاص فضائل میں سے ہے۔
ایڈمن
قاضی حارث