جو شخص غصے کی کیمسٹری کو سمجھتا
ھو وہ بڑی آسانی سے غصہ کنٹرول کر
سکتا ھے۔
“ میں نے پوچھا ”سر غصے کی کیمسٹری
کیا ھے ؟“
وہ مسکرا کر بولے ”ھمارے اندر سولہ کیمیکلز ھیں‘ یہ کیمیکلز ھمارے جذبات‘ ھمارے ایموشن بناتے ھیں‘ ھمارے ایموشن ھمارے موڈز طے کرتے ھیں اور یہ موڈز ھماری پرسنیلٹی بناتے ھیں“ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رھا‘ وہ بولے ” ھمارے ھر
ایموشن کا دورانیہ 12 منٹ ھوتا ھے“
میں نے پوچھا ”مثلا“۔۔۔؟ وہ بولے
”مثلاً غصہ ایک جذبہ ھے‘ یہ جذبہ کیمیکل ری ایکشن سے پیدا ھوتا ھے‘مثلاً ھمارے جسم نے انسولین نہیں بنائی یا یہ
ضرورت سے کم تھی‘ ھم نے ضرورت
سے زیادہ نمک کھا لیا‘
ھماری نیند پوری نہیں ھوئی یا پھر ھم خالی پیٹ گھر سے باھر آ گئیے‘ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟ ھمارے اندر کیمیکل ری ایکشن ھو گا‘ یہ ری ایکشن ھمارا بلڈ پریشر بڑھا دے گا اور یہ بلڈ پریشر ھمارے اندر غصے کا جذبہ پیدا کر دے گا‘ ھم بھڑک اٹھیں گے لیکن
ھماری یہ بھڑکن صرف 12 منٹ طویل
ھو گی‘
ھمارا جسم 12 منٹ بعد غصے کو بجھانے والے کیمیکل پیدا کر دے گا اور یوں ھم اگلے 15منٹوں میں کول ڈاؤن ھو جائیں گے۔
چنانچہ ھم اگر غصے کے بارہ منٹوں کو مینیج کرنا سیکھ لیں تو پھر ھم غصے کی تباہ کاریوں سے بچ جائیں گے“
میں نے عرض کیا ”کیا یہ نسخہ صرف غصے تک محدود ھے ؟
“ وہ مسکرا کر بولے ”جی نہیں‘ ھمارے چھ بیسک ایموشنز ھیں۔۔۔۔
‘ غصہ‘ خوف‘ نفرت‘ حیرت‘ لطف(انجوائے) اور اداسی‘ ان تمام ایموشنز کی عمر صرف بارہ منٹ ھوتی ھے‘ ھمیں صرف بارہ منٹ کیلئے خوف آتا ھے‘ ھم صرف 12 منٹ قھقھے لگاتے ھیں‘ ھم صرف بارہ منٹ اداس ھوتے ھیں‘ ھمیں نفرت بھی صرف بارہ منٹ کیلئے ھوتی ھے‘ ھمیں بارہ منٹ غصہ آتا ھے اور
ھم پر حیرت کا غلبہ بھی صرف 12 منٹ
رھتا ھے‘
ھمارا جسم بارہ منٹ بعد ھمارے ھر جذبے کو نارمل کر دیتا ہے“ میں نے عرض کیا ”لیکن میں اکثر لوگوں کو سارا سارا دن غصے‘ اداسی‘ نفرت اور خوف کے عالم میں دیکھتا ھوں‘ یہ سارا دن نارمل کیوں نہیں ھوتے ؟
“وہ مسکرا کر بولے” آپ ان جذبوں کو آگ کی طرح دیکھیں‘ آپ کے سامنے آگ پڑی ھے‘ آپ اگر اس آگ پر تھوڑا تھوڑا تیل ڈالتے رہیں گے‘ آپ اگر اس پر خشک لکڑیاں رکھتے رہیں گے تو کیا ھوگا ؟ یہ آگ پھیلتی چلی جائے گی‘ یہ بھڑکتی رھے گی‘
ھم میں سے زیادہ تر لوگ اپنے جذبات کو بجھانے کی بجائے ان پر تیل اور لکڑیاں ڈالنے لگتے ھیں چنانچہ وہ جذبہ جس نے 12 منٹ میں نارمل ھو جانا تھا وہ دو دو‘ تین تین دن تک وسیع ھو جاتا ھے‘ ھم اگر دو تین دن میں بھی نہ سنبھلیں تو وہ جذبہ ھمارا طویل موڈ بن جاتا ھے اور یہ موڈ ھماری شخصیت‘ ھماری پرسنیلٹی بن جاتا ھے یوں لوگ ھمیں غصیل خان‘ ملک خوفزدہ‘ نفرت شاہ‘ میاں قہقہہ صاحب اور حیرت شاہ کہنا شروع کر دیتے ھیں
“ وہ رکے اور پھر بولے ” آپ نے کبھی غور کیا ھم میں سے بے شمار لوگوں کے چہروں پر ھر وقت حیرت‘ ھنسی‘ نفرت‘ خوف‘ اداسی یا پھر غصہ کیوں نظر آتا ھے؟
وجہ صاف ظاھر ھے‘ جذبے نے بارہ منٹ کیلئے ان کے چہرے پر دستک دی لیکن انہوں نے اسے واپس نہیں جانے دیا اور یوں وہ جذبہ حیرت ھو‘ قہقہہ ھو‘ نفرت ھو‘ خوف ھو‘ اداسی ھو یا پھر غصہ ھو وہ ان کی شخصیت بن گیا‘ وہ ان کے چہرے پر ھمیشہ ھمیشہ کیلئے درج ھو گیا‘ یہ لوگ اگر وہ بارہ منٹ مینج کر لیتے تو یہ عمر بھر کی خرابی سے بچ جاتے‘ یہ کسی ایک جذبے کے غلام نہ بنتے‘ یہ اس کے ھاتھوں بلیک میل نہ ھوتے“
میں نے عرض کیا ” اور کیا محبت جذبہ نہیں ھوتا “ فوراً جواب دیا ”محبت اور شھوت دراصل لطف کے والدین ھیں‘ یہ جذبہ بھی صرف بارہ منٹ کا ھوتا ھے‘
آپ اگر اس کی بھٹی میں نئی لکڑیاں نہ ڈالیں تو یہ بھی بارہ منٹ میں ختم ھو جاتا ھے لیکن ھم بے وقوف لوگ اسے زلف یار میں باندھ کر گلے میں لٹکا لیتے ھیں اور یوں مجنوں بن کر ذلیل ھوتے ھیں‘ ھم انسان اگر اسی طرح شھوت کے بارہ منٹ بھی گزار لیں تو ھم گناہ‘ جرم اور ذلت سے بچ جائیں ، لیکن ھم یہ نہیں کر پاتے اور یوں ھم سنگسار ھوتے ھیں‘ قتل ھوتے ھیں‘ جیلیں بھگتتے ھیں اور ذلیل و رسوا ھوتے ھیں۔
‘ ھم سب بارہ منٹ کے قیدی ھیں‘
ھم اگر کسی نہ کسی طرح یہ قید گزار
لیں تو ھم لمبی قید سے بچ جاتے ھیں
ورنہ یہ 12 منٹ ھمیں کہیں کا نہیں
چھوڑتے“۔
میں نے ان سے عرض کیا
” آپ یہ بارہ منٹ کیسے مینیج کرتے ھیں
“ وہ مسکرا کر بولے ”میں نے ابھی آپ کے سامنے اس کا مظاھرہ کیا‘ وہ صاحب غصے میں اندر داخل ھوئے‘ مجھ سے اپنی فائل مانگی‘ میں نے انہیں بتایا میں آپ کی فائل پر دستخط کر کے واپس بھجوا چکا ھوں لیکن یہ نہیں مانے‘ انہوں نے مجھ پر جھوٹ اور غلط بیانی کا الزام بھی لگایا اور مجھے ماں بہن کی گالیاں بھی دیں‘ میرے تن من میں آگ لگ گئی لیکن میں کیونکہ جانتا تھا میری یہ صورتحال صرف 12 منٹ رھے گی چنانچہ میں چپ چاپ اٹھا‘ وضو کیا اور نماز پڑھنی شروع کر دی‘ میرے اس عمل پر 20 منٹ خرچ ھوئے‘ ان 20 منٹوں میں میرا غصہ بھی ختم ھو گیا اور وہ صاحب بھی حقیقت پر پہنچ گئے‘ میں اگر نماز نہ پڑھتا تو میں انہیں جواب دیتا‘ ھمارے درمیان تلخ کلامی ھوتی‘ لوگ کام چھوڑ کر اکٹھے ھو جاتے‘ھمارے درمیان ھاتھا پائی ھو جاتی‘ میں اس کا سر پھاڑ دیتا یا یہ مجھے نقصان پہنچا دیتا ، لیکن اس سارے فساد کا آخر میں کیا نتیجہ نکلتا ؟ پتہ چلتا ھم دونوں بے وقوف تھے‘ ھم سارا دن اپنا کان چیک کئے بغیر کتے کے پیچھے بھاگتے رھے چنانچہ میں نے جائے نماز پر بیٹھ کر وہ بارہ منٹ گزار لئے اور یوں میں‘ وہ اور یہ سارا دفتر ڈیزاسٹر سے بچ گیا‘ ھم سب کا دن اور عزت محفوظ ھو گئی“
میں نے پوچھا ”کیا آپ غصے میں ھر بار نماز پڑھتے ھیں“ وہ بولے ” ھرگز نہیں‘ میں جب بھی کسی جذبے کے غلبے میں آتا ھوں تو میں سب سے پہلے اپنا منہ بند کر لیتا ھؤں‘ میں زبان سے ایک لفظ نہیں بولتا‘ میں قہقہہ لگاتے ھوئے بھی صرف ھنستا ھوں اور ھنستے ھنستے کوئی دوسرا کام شروع کر دیتا ھوں‘ میں خوف‘ غصے‘ اداسی اور لطف کے حملے میں واک کیلئے چلا جاتا ھوں‘ غسل کر لیتا ھوں‘ وضو کرتا ھوں‘ 20 منٹ کیلئے چپ کا روزہ رکھ لیتا ھوں‘ استغفار کی تسبیح کرتا ھوں‘
اپنی والدہ یا اپنے بچوں کو فون کرتا ھوں‘ اپنے کمرے‘ اپنی میز کی صفائی شروع کر دیتا ہوں‘ اپنا بیگ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں‘ اپنے کان اور آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتا ہوں یا پھر اٹھ کر نماز پڑھ لیتا ہوں یوں بارہ منٹ گزر جاتے ہیں‘ طوفان ٹل جاتا ھے‘ میری عقل ٹھکانے پر آ جاتی ھے اور میں فیصلے کے قابل ھو جاتا ھوں“ وہ خاموش ھو گئے‘ میں نے عرض کیا ”اور اگر آپ کو یہ تمام سہولتیں حاصل نہ ھوں تو آپ کیا کرتے ہیں“
وہ رکے‘ چند لمحے سوچا اور بولے ”آسمان گر جائے یا پھر زمین پھٹ جائے‘ میں منہ نہیں کھولتا‘
میں خاموش رھتا ھوں اور آپ یقین کیجئے سونامی خواہ کتنا ھی بڑا کیوں نہ ھو وہ میری خاموشی کا مقابلہ نھیں کر سکتا‘ وہ بھرحال پسپا ھو جاتا ھے‘ آپ بھی خاموش رہ کر زندگی کے تمام طوفانوں کو شکست دے سکتے ھیں..
ﺍﻟﻠﮧ ﮬﻢ ﺳﺐ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿں ﺁﺳﺎﻧﯿﺎﮞ ﻋﻄﺎء فرمائے
ﺁﻣﯿﻦ یا رب العالمین