سورہ ابراھیم آیت نمبر 24
اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ
ترجمہ:
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان کی ہے ؟ وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوطی سے جمی ہوئی ہے، اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔ (١٨)
تفسیر:
18: کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الا اللہ ہے اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوتی ہیں، اور تیز ہوائیں اور آندھیاں اسے نقصان نہیں پہنچاسکتیں، نہ اسے اپنی جگہ سے ہلا سکتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ انسان کے دل و دماغ میں پیوست ہوجاتا ہے تو ایمان کی خاطر اسے کیسی ہی تکلیفوں یا مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے اس کے ایمان میں کوئی کمزوری نہیں آتی ؛
چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو ہر قسم کی اذیتیں دی گئیں ؛ لیکن توحید کا جو کلمہ ان کے دل میں گھر کرچکا تھا اس میں مصائب کی ان آندھیوں سے ذرہ برابر تزلزل نہیں آیا، کھجور کے درخت کی دوسری صفت اس آیت میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اسکی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوتی ہیں، اور زمین کی کثافتوں سے دور رہتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ مومن کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے تو اسکے تمام نیک کام جو درحقیقت اسی کلمے کی شاخیں ہیں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچ کر اس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں، اور دنیا پرستی کی کثافتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی