اسلام آباد میں ورکنگ وومن سیمینار تھا جس میں اسلام آباد کی (خصوصاً اور باقی علاقوں کی عموماً) خواتین مدعو تھیں۔
روس کی دو خواتین جو اردو سیکھنے کی غرض سے اسلام آباد آئی ہوئی تھیں انہیں بھی تقریب کی شان بڑھانے کیلئے بلا لیا گیا۔
تقریب سے خطاب کے دوران خواتین نے روس کی ترقی کی مثال دیتے ہوئے اس کا سہرا وہاں کی ورکنگ وومن کے سر پر رکھ دیا۔ خیر پھر روس کی خاتون کو بھی بات کرنے کا موقع دیا گیا۔
روسی خاتون نے روس کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے ہاں اٹھانوے فیصد خواتین گھر سے باہر نکلتی ہیں، اور شاید یہی ہماری ترقی کا راز بھی ہے۔
تمام ہال تالیوں کی آواز سے گونج گیا، پاکستانی خواتین تو ایسے خوش ہورہی تھیں کہ جیسے “ترقی” کا زینہ ہاتھ لگ گیا ہو۔
روسی خاتون نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا، لیکن ابھی ہمارے پاس دو فیصد گھریلو خواتین ہیں اور مجھے فخر ہے کہ میں بھی ان دو فیصد خواتین میں سے ایک ہوں۔
اچانک تمام ہال پر سناتا چھا گیا۔
اس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، “دراصل ہم نے معاشی لحاظ سے تو ترقی کرلی ہے جبکہ معاشرتی لحاظ سے ہمارا معاشرہ تباہ ہوچکا ہے۔ شراب نوشی، قتل و غارت، زنا بالجبر اور ڈاکہ زنی عام ہو چکی ہے۔ اور ایسا صرف اس لیے ہوا ہے کہ مائیں بچوں کی تربیت نہیں کر رہیں، بچے بچپن سے آزاد ماحول میں زندگی گزارتے ہیں جہاں انہیں کارٹون، گیمز اور تفریح کی دوسری چیزیں مہیا کی جاتی ہیں لیکن یہ چیزیں انہیں شدت پسند اور قانون کا باغی بنا دیتی ہیں۔
اب ہمارے معاشرے میں ان عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے جو گھروں میں رہتی ہیں اور بچوں کی تربیت کرتی ہیں۔
وہ اور نہ جانے کیا کیا کہتی گئی لیکن سامنے بیٹھی عورتیں ایسے سن رہی تھیں جیسے ہم آپ اپنے ابو، امی یا بڑے بھائی کا پڑھائی کے بارے میں دیا گیا لیکچر سنتے ہیں۔
جس میں وہ کہہ رہے ہوتے ہیں پڑھ لو ورنہ بعد میں پچھتاؤ گے، اور ہم ان کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔۔۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
پوسٹ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ :
ایک عورت کی گود میں جب ” بچہ ” آتا ھے تو اس پر نبیوں جیسی بڑی ذمہ داری عائد ھوتی ھے.. ایک ایسا فرض جس میں غفلت کی گنجائش نہیں ھوتی..
جب ایک انسان کو پرورش کیلئے دوسرا انسان دیا جاتا ھے تو گویا ساری انسانیت کی لگامیں اس کے ھاتھ میں دے دی جاتی ھیں کہ چاھو تو اسے ابلیس بنادو کہ کل کو ساری انسانیت کیلئے وبال بن جائے.. اور چاھو تو وہ بندہ بشر بنادو جو اپنے آگے پیچهے اور دائیں اور بائیں “خیر” کی روشنی بکھیرتا چلا جائے..
سارے انسان ” خیر ” ھوتے ھیں.. بس ان کی پرورش کے گہوارے ان کو یا تو پھول بنا دیتے ھیں یا پتھر____!