اللہ سے دعائیں پوری کرانے کا یقینی نسخہ – مجیب الحق حقی
اللہ سے بہت سی خواہشات اور دعائیں پوری کرانے کا ایک یقینی پیرایہ بھی ہوسکتا ہے!
آپ کو یہ بات عجیب لگی نا؟
لیکن قرآن اور احادیث کی روشنی میں یہ بات درست بھی ہے۔
کیسے؟ آئیے جانتے ہیں۔
دیکھیں جناب! ہماری حیات ایک نعمت اور زندہ رہنے کے لوازمات بے شمار ہیں، جن میں آسائشات اور تعیّشات بھی شامل ہیں۔ ان میں اضافے کے لیے یا اس میں کسی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہم دعائیں مانگتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری دعائیں صرف التجا ہوتی ہیں کیا ہماے پاس کوئی ایسا طریقہ ہے کہ اللہ ہماری دعا لازماً قبول کرے اور ہماری مراد پوری ہو؟
آیئے قرآن اور احادیث کی روشنی میں اسی شارٹ کٹ کو تلاش کرتے ہیں۔
پہلی اہم بات جو قرآن سے ملتی ہے، وہ یہ کہ اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ یعنی کہ اللہ وعدے کا پکّا ہے ۔ انّکَ لا تخلف المیعاد
دوسرا اور سب سے اہم نکتہ اللہ کا یہ فرمان ہے کہ :
لَئِن شَکرتْم لاَزِیدَنَّکْم- میرا شکر کرو میں اور دوں گا۔ (قرآن)
گویا یہ ایک وعدہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے شکر کے عوض نعمت میں اضافہ کرنا خود پر لازم کرلیا ہے۔
تیسری بات یہ حدیث قدسی کہ اللہ کا سلوک اپنے بندے کے ساتھ اس کے گمان کے مطابق ہوتا ہے۔
ان تین باتوں کو سمجھ کر ہم آگے بڑھتے ہیں اور اس تکون میں کسی طریقے کو دریافت کرتے ہیں کی اللہ ہماری جائز خواہش کو پورا کردے۔
اب یہاں ایک بات پر توجّہ کی ضرورت ہے کہ ہم زیادہ تر اپنی محرومیوں اور خواہشات کو سامنے رکھ کر دعائیں مانگتے ہیں، مثلاً:
اے اللہ مجھے فلاں بیماری سے شفایابی عطا کریں،
یا اے اللہ مجھے فلاں نعمت عطا کریں، یامصائب اور مصیبتوں کو دور کردیں،
یا میری اولاد کو میرا مطیع بنائیں،
یا میری ترقّی ہوجائے،
یا اے اللہ مجھے امتحان میں کامیابی عطاکریں، وغیرہ وغیرہ
مندرجہ بالا قرآنی اور حدیث کے نکات کو سامنے رکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر کسی کو کوئی دعا قبول کرانی ہے تو اس کا ایک یقینی راستہ بھی ہے اور وہ یہ کہ اپنی التجا کو کسی طرح شُکر کی شکل دے دیں! لیکن التجا تو کسی محرومی کے حوالے سے ہوتی ہے تو اسے کیسے شکر میں بدلیں؟
یہاں ہمیں ایک صحابی کے واقعہ سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ کسی جنگ میں ایک صحابی کا دانت شہید ہوا تو انہوں نے ا للہ کا شکر ادا کیا کہ ان کی آنکھ محفوظ رہی۔ یہی شکر کا فلسفہ ہے اور ہمیں اسی طرز ِ فکر کو ذرا پھیلانا ہوگا۔ دیکھیں جناب کوئی بیماری جسم کے کسی عضو کو ہوتی ہے جبکہ باقی اعضاء سلامت ہوتے ہیں، مثلاٍ ہمارے حواس بیدار ہوتے ہیں اور جسم کے بہت سارے نظام معمول کے مطابق رواں دواں ہوتے ہیں، لہٰذا اگر ہم اس بیماری کو نظر انداز کرکے روزانہ صمیم قلب سے دو رکعت نماز شکرانہ صحت کے اقرار کی پڑھیں اور تمام نظام ہائے جسم کی صحت کاشکر ادا کرتے رہیں تو اس صحت کے شکر کی بدولت اللہ اپنے وعدے کے مطابق ہماری صحت میں اضافہ کرے گا یعنی بیماری کی وجہ سے صحت میں جو کمی آئی ہے، وہ اللہ اپنے وعدے کے مطابق پوری کردے گا، اس طرح صحت میں بڑھتا اضافہ رفتہ رفتہ بیماریوں کو زائل کرتا رہے گا۔ بس اصل نکتہ اللہ سے یہ گمان رکھنا ہے کہ میرا رب شکر پر نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے اور اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔
اسی طرح اگر کوئی مکان چاہتا ہے تو جس چھت تلے رہ رہا ہے، اس کا شکر باقاعدگی سے ادا کرنا شروع کرے تو اس راحت میں اضافہ اللہ اپنے وعدے کے مطابق کسی طرح بھی کرے گا، اس میں بندے کا فائدہ ہی ہونا ہے۔
کسی کا بچّہ کند ذہن ہے تو اس بات کا شکر ادا کرنا معمول بنالیں کہ وہ پڑھ رہا ہے۔
اچھی سواری کی تمنّا ہے تو جس طرح بھی نقل و حمل ہے، اس پر شکر ادا کرتے رہیں۔ یعنی اگر کچھ نہیں ہے تو ٹانگیں تو ہیں کہ ہم ادھر اُدھر پھرتے ہیں۔
اگر حالات مخدوش ہیں تو روز سلامتی سے رہنے کا شکر عطا کرتے رہیں، ان شاء اللہ سلامتی میں اضافہ ہوگا۔
کوئی جوڑا اولاد سے محروم ہے تو یہ شکر ادا کرنا معمول بنائے کہ اللہ نے ان کو جوڑ دیا تاکہ اس کی مخلوق میں اضافے کا ذریعہ بنیں۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ اس شکر کو ہی کسی عطا کا ذریعہ بنادیں۔
اولاد کی یا اپنی شادی کے لیے شکر ایک پیچیدہ مسئلہ ہوگا لیکن اگر سارے لوازمات پورے ہیں یعنی صحت اور روزگار میسّر ہے تو اللہ کا یہ شکر کہ اس نے مخلوق کا ہر فرض پورا کرنے کی قوّت اور صلاحیت دی۔ اللہ نیتوں کا حال تو جانتا ہے، آپ کو بیوی بچّوں کی ذمّہ داریاں بھی عطا کرے گا کیونکہ بیوی بچّوں کی دیکھ بھال بھی تو فرائض ہیں۔ غرض اپنے حالات کے مطابق کسی بھی خواہش کی تکمیل کے لیے خود ایسی نعمتوں کو تلاش کریں جس کا کوئی تعلّق کسی طرح اس محرومی سے نکلتا ہو اور اس کا شکر ادا کرتے رہیں۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے شکر کرنے سے یقیناً اس سے یعنی شکر سے منسلک کوئی پوشیدہ نظم حرکت میں آتا ہے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو، لیکن یہ کتنا وقت لے گا، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ یعنی اب یہ اللہ کی مرضی کہ شکر کا ایک لمحہ ہی قبول کرلے یا شکر کی تکرار چاہتا ہو۔ ایک پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہماری اپنی ناشکریوں نے جو رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں، وہ ہٹنے میں کتنا وقت لیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے شکر کی تکرار کسی غیر مرئی ہتھوڑی کی ضربات ہیں جو کسی نامعلوم غیر مرئی رکاوٹ کو توڑ رہی ہوتی ہیں۔
ایک نکتہ اور اہم ہے اور وہ یہ کہ ہم کو اپنی دعاؤں میں لفظ “اور” کو شامل کرنا چاہیے۔ مثلاً ہم جب یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں یا ہماری اولاد کو صحت اور تندرستی یا عافیت، دولت وغیرہ عطا کر تو حقیقت میں تو یہ کسی نہ کسی شکل میں پہلے ہی موجود ہوتی ہے، لہٰذا لفظ اور اس دعا میں شکر بھی شامل کردے گا۔ جیسے کہ اے اللہ میری بیٹی کو اور نعمتیں عطا کریں وغیرہ۔
اللہ سے اپنی مرضی کرانے کا یہ بہت آسان طریقہ ہے، جو صبر اور شکر کو اپنا روزمرّہ کا معمول بنانے میں چھپا ہے، یعنی اللہ کی عطا کردہ ہر چھوٹی بڑی نعمت کا ادراک اور مستقل مزاجی سے اس کا شکر ہی ہر طرح کی کامیابی کی نوید ہو سکتی ہے۔ مگر اس شکرِ مسلسل کو کسی معیّن وقت سے منسلک نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ماہ شکر کر لیا، کوئی فائدہ نظر نہیں آ رہا۔ اس طرح کی سوچ کا مطلب یہ ہوگا کہ ہمارا گمان نا پختہ ہے۔
اللہ ہم سب کو پختہ ایمان اور نیک گمان عطا کریں اور زمانے کے حوادث سے محفوظ رکھیں۔ آمین
یاد رکھیں کہ روزانہ ایک بار یا دن مین کئی بار شکر کا یہ عمل اللہ کا ایک مستقل تعلق بھی دیتا ہے اور کیا عجب کہ شکر کے ساتھ ساتھ ناشکریوں پر ندامت اور استغفار سے اللہ کا عرفان بھی مل جائے۔
واللہ اعلم