*اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ
فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍۙo اٰخِذِیْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْؕ- اِنَّهُمْ
كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِیْنَo كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا
یَهْجَعُوْنَo وَبِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo وَفِیْۤ اَمْوَالِهِمْ
حَقٌّ لِّلسَّآىٕلِ وَالْمَحْرُوْمِo* (سورہ ذاریات آیت ١۵ تا ١٩)
*ترجمہ:*
بیشک پرہیزگار لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اپنے رب کی عطائیں لیتے ہوئے، بیشک
وہ اس سے پہلے نیکیاں کرنے والے تھے۔ وہ رات میں کم سویا کرتے تھے۔ اور رات کے
آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔ اور ان کے مالوں میں مانگنے والے اور محروم کا
حق تھا۔
*تفسیر،
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ: بیشک پرہیزگار}*
قرآن پاک نے
اس مقام پر متقی مسلمانوں کے اوصاف بیان فرماۓ ہیں کہ بے شک پرہیزگار لوگ ان باغوں
میں ہوں گے جن میں لطیف چشمے جاری ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ عطا فرمائے گا
اسے راضی خوشی قبول کرتے ہوں گے۔ بیشک وہ جنت میں داخل داخل ہونے سے پہلے دنیا میں
نیک کام کرتے تھے اسی لئے انہیں یہ عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔
(تفسیرابو
سعود ج۵/ص۶۲۸، تفسیرخازن ج۴/ص۱۸۱)
*نیک اعمال
آخرت کی عظیم کامیابی حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں:*
اس سے معلوم
ہوا کہ دنیا میں کئے ہوئے نیک اعمال آخرت کی عظیم کامیابی یعنی جنت اور اس کی
نعمتیں ملنے کا ذریعہ ہیں لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ
کرتا رہے اور نیک اعمال کی کثرت کرے تاکہ دنیا و آخرت کی سرفرازی نصیب ہو۔ نیک
اعمال کرنے والوں کے بارے میں حدیث شریف ہے، حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں حضور پُرنور ﷺ نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اے لوگو!
مرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرلو اور مصروف ہوجانے سے پہلے نیک
اعمال کرنے میں جلدی کرلو اور ذکر کی کثرت سے اپنے اور اپنے رب کے درمیان تعلق
پیدا کرلو اسی طرح ظاہری اور پوشیدہ طور پر صدقہ دیا کرو تو تمہیں رزق بھی دیا
جائے گا، تمہاری مدد بھی کی جائے گی اور تمہارے نقصان کی تَلافی بھی کی جائے گی۔
(ابن ماجہ
ج۲/ص۵ حدیث ۱۰۸۱)
*تفسیر،
كَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَهْجَعُوْنَ: وہ رات میں کم سویا کرتے
تھے}*
اس آیت اور
اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ پرہیز گار لوگوں کا نیک اعمال کرنے میں حال
یہ تھا کہ وہ رات تہجُّد اور شب بیداری میں گزارتے اور رات میں بہت تھوڑی دیر سوتے
تھے اور اتنا سوجانے کو بھی اپنا قصور سمجھتے تھے اور رات تہجُّد اور شب بیداری
میں گزار نے کے باوجود بھی وہ خود کو گناہگار سمجھتے تھے اور رات کا پچھلا حصہ
اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے میں گزارتے تھے۔
(تفسیرمدارک
ص۱۱۶۷، تفسیر جلالین مع جمل ج۷/ص۲۷۹)
*رات کا
آخری حصہ مغفرت طلب کرنے اور دعا مانگنے کے لئے انتہائی مَوزوں ہے:*
اس سے معلوم
ہوا کہ رات کا آخری حصہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے اور دعا کے لئے بہت مَوزوں
ہے۔ یہاں اس سے متعلق ایک حدیث پاک بھی ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
*’’ہمارا رب
تعالیٰ ہر رات اس وقت دنیا کے آسمان کی طرف نزولِ اِجلال فرماتا ہے جب رات کا
تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے ’’کوئی ایسا ہے جو مجھ سے دعا کرے تاکہ
میں اس کی دعا قبول کروں؟ کوئی ایسا ہے جو مجھ سے سوال کرے تاکہ میں اسے عطا کروں؟
کوئی ایسا ہے جو مجھ سے معافی چاہے تاکہ میں اسے بخش دوں۔*
(بخاری شریف
ج۱/ص۳۸۸ حدیث ۱۱۴۵)
*تفسیر،
وَفِیْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ: اور ان کے مالوں میں حق تھا}*
اس آیت میں
پرہیز گاروں کے بارے میں بیان کیا گیا کہ ان کے مالوں میں مانگنے والے اور محروم
کا حق تھا۔ مانگنے والے سے مراد وہ ہے جو اپنی حاجت کے لئے لوگوں سے سوال کرے اور
محروم سے مراد وہ ہے جو حاجت مند ہو اور حیاء کی وجہ سے سوال بھی نہ کرے۔
(تفسیر مدارک
ص۱۱۶۷)
*پرہیزگاروں
کی 4 صفات:*
اس آیت سے
پرہیز گاروں کی 4 صفات معلوم ہوئیں:
١۔ ان کے مال
میں غریبوں کا حصہ ہوتا ہے۔
٢۔ وہ ہر قسم
کے فقیر کو دیتے ہیں چاہے اسے پہچانتے ہوں یا نہیں۔
٣۔ ان کا
دینا سائل کے مانگنے پر مَوقوف نہیں، وہ مانگنے والوں کو بھی دیتے ہیں اور تلاش
کرکے ان مَساکین کو بھی دیتے ہیں جو حیاء اور شرم کی وجہ سے مانگ نہ سکیں۔
۴۔ وہ فقیروں
کو دے کر ان پر اپنا احسان نہیں جتاتے بلکہ اپنی کمائی میں انکا حق سمجھتے ہیں اور
ان کا احسان مانتے ہیں کہ انہوں نے ہمارا مال قبول کرلیا۔
اللہ تعالیٰ
ہمارے معاشرے کے مسلمانوں کو بھی متقی بنائے اور یہ تمام اوصاف اپنانے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین
واللـــہ
تعـــالیٰ اعـــلم ورســـولـہ ﷺ اعـــلم۔