جنازے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سب لوگ کلمہ پڑھ رہے تھے جنازہ گاہ ابھی کچھ فاصلے پر تھی۔ تبھی مجھے اپنے ساتھ چلتے ہوئے شخص کی دھیمی مگر صاف آواز سنائی دی۔
“یا اللہ! اسے بے حساب اجر دینا۔ اللہ، اسے بے حساب اجر دینا “
وہ بار بار یہی بات دہرا رہا تھا۔ تدفین کے بعد میں نے اس سے پوچھا
“مرحوم کا آپ کے ساتھ کیا رشتہ تھا”
بولا، کچھ بھی نہیں۔ وہ میرا کوئی بھی نہیں تھا۔
مطلب! میں تھوڑا حیران ہوا۔ کہنے لگا۔
“میں بہت غریب آدمی ہوں صاحب! کچھ عرصہ پہلے میری بیوی شدید بیمار ہوگئی۔ اس کے آپریشن کے لئے لمبی چوڑی رقم کی ضرورت تھی، جو میرے بس سے باہر تھی۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر گاوں کے چوہدری سے اس شرط پر قرض لیا کہ اگر ایک سال کے اندر ادا نہ کر سکا تو وہ اس میں سود کی رقم بھی شامل کرلے گا۔ اس وقت میں، دکھ اور غم سے نڈھال تھا اور ضرورتمند بھی۔ اس لئے مان گیا۔ لیکن جلد ہی احسا س ہو گیا کہ اتنی بڑی رقم تو میں کئی سالوں تک ادا نہیں کر سکوں گا۔ یہی دکھ اور غم لئے مسجد میں بیٹھا اللہ سے فریاد کر رہا تھا۔ رو رو کر اس سے وسیلہ مانگ رہا تھا کہ وہ میری مشکل آسان فرما دے۔
یہ مرحوم قریب ہی بیٹھا نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے شائد میری آہ وزاری سن لی، پاس آکر بولا,
میں ذیادہ امیر تو نہیں ہوں لیکن وعدہ کرتا ہوں کہ اللہ کی رضا کی خاطر تمہارا قرض اتارنے میں تمہاری مدد کرونگا۔ اور پھر اس نے واقعی اپنا وعدہ پورا کیا۔
اللہ کا فرمان ہے صاحب! کہ کسی کے قرض کا بوجھ اتارنے والے کو ثواب ملے گا۔ تو میں اللہ سے دعا کر رہا تھا کہ اسے بغیر گنے، بے حساب اجر عطا فرمائے۔ جس نے اللہ کی رضاکی خاطر میری مدد کی۔ تو کیا میں اس کے لئے بہترین اجر کی دعا نہ کروں، “
وہ تو اللہ ہے صاحب! سب کچھ کر سکتا ہے۔
اور میں سوچ رہا تھا، دوسروں کو نفع دینے والے خود کب گھاٹے میں رہتے ہیں ۔ چراغ سے چراغ یونہی جلتے ہیں۔