مشتاق احمد یوسفی۔
میں آفس میں آتے ہی ایک کپ چائے ضرور پیتا ہوں۔ اُس روز ابھی میں نے پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ اطلاع ملی: کوئی صاحب مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے کہا: بھجوا دیجئے۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور شلوار قمیض پہنے‘ گریبان کے بٹن کھولے‘ گلے میں کافی سارا
ٹیلکم پائوڈر لگائے‘ ہاتھوں میں مختلف قسم کی مُندریاں اور کانوں میں رِنگ پہنے ہوئے ایک نیم کالے صاحب اندر داخل ہوئے۔ سلام لیا اور سامنے بیٹھ گئے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا‘ وہ نہایت اطمینان سے بولے… ”میں بھی ایک مراثی ہوں‘‘۔ میں بوکھلا گیا… ”کک… کیا مطلب.؟؟؟‘‘
وہ تھوڑا قریب ہوئے اور بولے ”مولا خوش رکھے… میں کافی دنوں سے آپ سے ملنا چاہ رہا تھا… سنا ہے آپ بھی میری طرح… میرا مطلب ہے‘ آپ بھی لوگوں کو ہنساتے ہیں؟‘‘
میں نے جلدی سے کہا ”ہاں… لیکن میں مراثی نہیں ہوں…!!!‘‘
”اچھی بات ہے‘‘ وہ اطمینان سے بولے ”میں نے بھی کبھی کسی کو
اپنی حقیقت نہیں بتائی…!!!‘‘
میرا خون کھول اٹھا ”عجیب آدمی ہو تم… تمہیں لگتا ہے میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ یہ دیکھو میرا شناختی کارڈ… ہم یوسفزٸ ہیں!!!‘‘ وہ کارڈ دیکھتے ہی چہکا…!!! ”مولا خوش رکھے… وہی بات نکلی ناں…!!!‘‘
میرا دل چاہا کہ اچھل کر اُس کی گردن دبوچ لوں‘
لیکن کم بخت کا ڈیل ڈول اچھا تھا اس لیے میں نے خود کو قابو میں رکھا اور آنے کا مقصد پوچھا۔
اُس نے محتاط نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا‘ پھر ٹیبل پر آگے کو جھک کر بولا ”مجھے نوکری چاہیے‘‘۔
میں پہلے چونکا‘ پھر غصے سے بھڑک اٹھا ”یہ کوئی کمرشل تھیٹر کا دفتر نہیں ہے‘تم نے کیسے سوچ لیا کہ
یہاں مراثی بھرتی کیے جاتے ہیں؟‘‘
وہ کچھ دیر مجھے گھورتا رہا‘ پھر اپنی مندری گھماتے ہوئے بولا ”یہاں نہ سہی‘ کسی دوسرے دفتر میں ہی کام دلوا دیں‘‘۔
میں کوئی سخت جواب دینے ہی والا تھا کہ اچانک میرے ذہن میں ایک اچھوتا خیال آیا اور میں مسکرا اٹھا‘ آفس بوائے سے اُس کے لیے بھی چائے
لانے کے لیے کہا اور خود اُٹھ کر اُس کے ساتھ والی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا۔ اُس کی آنکھوں میں الجھن سی اُتر آئی۔
میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا ”سنو! تمہیں بہت اچھی نوکری مل سکتی ہے‘ اگر تم مجھے ہنسا کے دکھا دو‘‘۔
وہ ہونقوں کی طرح میرا منہ دیکھنے لگا۔ میں نے اُس کی حالت کا
مزا اٹھاتے ہوئے اُسے زور سے ہلایا ”ہیلو! ہوش کرو… بتاؤ‘ یہ چیلنج قبول ہے؟‘‘۔
اُس نے کچھ دیر پھر مندری گھمائی اور نفی میں سر ہلا دیا۔
میں حیران رہ گیا‘ وہ مراثی ہونے کے باوجود مجھ جیسے اچھے خاصے معزز انسان سے ہار مان رہا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اُس نے عجیب سا جواب دیا ”میں نے
لوگوں کو ہنسانا چھوڑ دیا ہے‘‘۔
میں اچھل پڑا ”یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟؟ ‘‘
اُس نے لمبا سانس لیا اور بیزاری سے بولا ”لوگ اب ہنسنا چھوڑ چکے ہیں‘‘۔
میں نے ایک زوردار قہقہہ لگایا ”یہ تمہاری غلط فہمی ہے… دنیا آج بھی ہنستی ہے‘ مزاحیہ تحریریں پڑھتی ہے‘ مزاحیہ ڈرامے دیکھتی ہے‘
جگتیں پسند کرتی ہے…‘‘۔
اُس نے اپنی مندری نکال کر دوسری انگلی میں پہنی اور اپنی بڑھی ہوئی شیو پر خارش کرتے ہوئے بولا ”دنیا ہنستی نہیں‘ دوسروں کی ذلت پر خوش ہوتی ہے‘‘۔
میں نے پھر قہقہہ لگایا ”وہ کیسے بھئی؟‘‘۔
اُس نے قمیص کی سائیڈ والی جیب سے سستے والے سگریٹ کی مسلی ہوئی ڈبی
نکالی اور میری طرف اجازت طلب نظروں سے دیکھا‘ میں نے ایش ٹرے اُس کے سامنے رکھ دی۔ اُس نے شکریہ کہا اور سگریٹ سلگا کر گہرا کش لیا۔
میں اُس کے جواب کا منتظر تھا‘ تھوڑی دیر خاموشی رہی‘ پھر اُس کی آواز آئی ”آپ کا منہ فلسطین کے لومڑ جیسا ہے…‘‘۔
مجھے گویا ایک کرنٹ سا لگا اور میں
کرسی سے پھسل گیا۔ میری رگ رگ میں طوفان بھر گیا۔ وہ میرے دفتر میں بیٹھ کر مجھے ہی لومڑ کہہ رہا تھا‘ بات تو سچ تھی مگر بات تھی رسوائی کی… میرا چہرہ سرخ ہو گیا‘ اس سے پہلے کہ میں اُس پر چائے کا گرم گرم کپ انڈیل دیتا‘ وہ جلدی سے بولا ”آپ کا ایک جگری دوست شہزاد ہے ناں؟‘‘ میں
پوری قوت سے چلایا ”ہاں ہے…پھر؟؟؟‘‘۔ وہ فوراً بولا ”اُس کی شکل بینکاک کے جمعدار جیسی ہے‘‘۔
میں نے بوکھلا کر اُس کا یہ جملہ سنا … کچھ دیر غور کیا اور پھر… بے اختیار میری ہنسی چھوٹ گئی… میں ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگیا۔
تین چار منٹ تک آفس میں میرے قہقہے گونجتے رہے‘ بڑی
مشکل سے میں نے خود پر قابو پایا اور دانت نکالتے ہوئے کہا ”شرم کرو… وہ میرا دوست ہے‘‘۔
میری بات سنتے ہی مراثی نے پوری سنجیدگی سے کہا ”ایسی ہنسی آپ کو اپنے اوپر لگنے والی جگت پر کیوں نہیں آئی؟‘‘۔
میں یکدم چونک اٹھا‘ ساری بات میری سمجھ میں آ گئی تھی…!!!
ہمارے معاشرے میں واقعی وہ چیز زیادہ ہنسی کا باعث بنتی ہے جس میں کسی دوسرے کی ذلت کا سامان ہو‘ یہی وجہ ہے کہ سٹیج ڈراموں اور عام زندگی میں جب ہم کسی دوسرے کو ذلیل ہوتے دیکھتے ہیں تو ہمارے دل و دماغ فریش ہو جاتے ہیں۔
کوئی بندہ چلتے ہوئے گر جائے‘
کسی کی گاڑی خراب ہو جائے‘
کسی کے پیچھے کتا دوڑ لگا دے‘
کسی کی بس نکل جائے اور وہ آوازیں لگاتا رہ جائے تو ہماری ہنسی نہیں رکتی‘
*یہی عمل اگر ہمارے ساتھ ہو اور دوسرے ہنسیں تو ہم غصے سے بھر جاتے ہیں۔*
گویا ہنسنے کے لیے کسی کا ذلیل ہونا لازمی امر قرار پا چکا ہے۔
یہی رویہ ہماری زندگی کے ہر پہلو میں در آیا ہے
ہمیں اپنے سُکھ سے اتنی راحت نہیں ملتی جتنے کسی کے دُکھ ہمیں سکون دیتے ہیں۔
یہاں جو انسان اچھی نوکری پر ہے وہ بڑی طمانیت سے مسکراتے ہوئے بے روزگار کو اٹھتے بیٹھتے اپنی کامیابیوں اور اُس کی ناکامیوں کی وجوہات بتاتا ہے چاہے بےروزگار اُس سے سو گنا زیادہ صلاحیتوں کا مالک ہی کیوں نہ ہو
ہم وہ قوم بن چکے ہیں جو کسی بھوکے کو دیکھتے ہی اپنے لیے کھانا منگوا لیتی ہے۔
ہم اپنی فیملی کے ساتھ گاڑی میں اے سی آن کر کے جا رہے ہوں تو ہمیں سڑک پر اپنے بیوی بچوں کا بوجھ اٹھائے سائیکل پر جاتا ہوا غریب آدمی بہت لطف دیتا ہے‘
ہمارے سامنے کسی کمزور کو مار پڑ رہی ہو تو ہم بڑی
دلچسپی سے اُسے دیکھتے ہوئے مسکرانے لگتے ہیں‘
ہم اپنی کامیابیوں کو اپنا حق سمجھ کر انجوائے کرتے ہیں اور ناکام انسانوں کو محنت کرنے کے مشورے دیتے ہیں‘
جس کے پاس اپنا گھر ہے وہ کرائے کے گھر میں رہنے والے کی بے بسی کا مزا لیتے ہوئے اٹھتے بیٹھتے اُسے یہی نصیحت کرتا ہے کہ
کچھ اپنا گھر بنانے کا بھی سوچو‘ حالانکہ جو انسان کرائے پر رہتا ہو اُس سے زیادہ اپنا گھر بنانے کی خواہش بھلا کون کر سکتا ہے؟؟؟
*کبھی غور کیجئے گا*
کسی کی گاڑی یا موٹر سائیکل نہر میں جا گرے تو نکالنے والے کم اور انجوائے کرنے والے زیادہ جمع ہو جاتے ہیں۔
لیکن
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اذیت میں ہم ہوتے ہیں اور مسکرانے کے لیے پورا زمانہ …!!!
ہم میں سے ہر شخص کی مجبوریاں اور ذلتیں دوسروں کو ہنسانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں‘ ہم سب بیک وقت تماشا بھی ہیں ‘ تماشا گر بھی اور تماشائی بھی…!!!