بادشاہ ایک درویش کے پاس گیا جو کسی خاص ورد میں مصروف تھا بادشاہ نے اس درویش سے اس ورد کی بابت دریافت کیا تو درویش نے بتایا کہ یہ ورد ایک خاص مقصد کے لئے متحرک کرتا ہے، بادشاہ نے درویش
سے کہا کہ مجھے بھی اس ورد کی تعلیم دو، تو درویش نے کہا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا۔
بادشاہ یہ سن کر وہاں سے غصے میں رخصت ہوا اور اس نے اسی درویش کو اپنے دربار میں بلایا اور اسکو
کہنے لگا کہ میں نے تیرا ورد کسی اور سے سیکھ تو لیا ہے لیکن جس عمل کا تُو نے ذکر کیا تھا ۔ وہ عمل میرا پورا نہیں ہو رہا ۔ اب تُو مجھے بتا کہ ایسا کیوں ہے اور اسکا حل کیا ہے یعنی میں اس ورد کو پڑھنے میں کہاں غلطی کر رہا ھوں اور اگر تُو نے مجھے نہ بتایا تو سزا کے لئے تیار ھو جا۔
درویش یہ بات سن کر مسکرایا اور بادشاہ کے پاس کھڑئے ھوئے سپاھی کو حکم دیا کہ وہ بادشاہ کو فوراً گرفتار کر لے۔ سپاھی اور بادشاہ دونوں نے حیرت سے درویش کو دیکھا کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ شاید بادشاہ کے خوف سے اسکا دماغ الٹ گیا ہے۔ درویش نے ایک مرتبہ پھر انتہائی سخت لہجے میں سپاھی کو حکم دیا کہ وہ بادشاہ کو گرفتار کر لے، مگر سپاھی اپنی جگہ سے ایک انچ بھی نا ہلا۔ بادشاہ کی حیرت اب شدید غصے میں بدل چکی تھی، بادشاہ نے جلال کے عالم میں اسی سپاھی کو حکم دیا کہ اس گستاخ کو فوری گرفتار کر لیا جائے۔
یہ سنکر شاھی دربار میں موجود تمام سپاھیوں نے اپنے نیزوں اور تلواروں کا رخ درویش کیطرف کر لیا اور اسے چاروں طرف سے گھیرئے میں لے لیا۔ درویش یہ دیکھ کر مسکرایا اور بولا۔ ، سن بادشاہ جو میں نے اِن سپاھیوں کو کہا اور جو تُو نے انکو کہا وہ ایک ہی حکم تھا، الفاظ اور لہجہ سب ایک تھا لیکن میری بات سن کر یہ ایک سپاھی بھی خاموش رہا جبکہ تُو نے صرف ایک سپاھی کو حکم دیا تھا لیکن تیرا حکم سن کر دربار میں موجود تمام سپاھی فوراً حرکت میں آ گئے اور مجھے ایک آن میں گرفتار کر لیا۔ پس فرق حکم کا نھیں ہے بلکہ تیری اور میری حیثیت کا ہے۔ یہی سبب ہے کہ تیرئے ورد پڑھنے سے کبھی عمل ظہور پذیر نہیں ہوگا کیونکہ روحانی دنیا میں تیری حیثیت صفر ہے۔
سوال یہ نھیں ہے کہ قران میں شفاء ہے یا نھیں ہے سوال یہ ہے کہ پڑھنے والا کس کردار کا مالک ہے اور اللّٰہ سے کس قدر قربت رکھتا ہے ۔ اعمال، اسکی نیت اور ایمان کا ہے ۔