سورہ المجادلۃ آیت نمبر 11
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قِیۡلَ لَکُمۡ تَفَسَّحُوۡا فِی الۡمَجٰلِسِ فَافۡسَحُوۡا یَفۡسَحِ اللّٰہُ لَکُمۡ ۚ وَ اِذَا قِیۡلَ انۡشُزُوۡا فَانۡشُزُوۡا یَرۡفَعِ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ۙ وَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡعِلۡمَ دَرَجٰتٍ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۱۱﴾
ترجمہ:
اے ایمان والو ! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں دوسروں کے لیے گنجائش پید کرو، تو گنجائش پیدا کردیا کرو، (٧) اللہ تمہارے لیے وسعت پیدا کرے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ، تو اٹھ جاؤ، تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کو درجوں میں بلند کرے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
تفسیر:
7: اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد نبوی کے ساتھ اس چبوترے پر تشریف فرما تھے جسے صفہ کہا جاتا ہے۔ آپ کے ارد گرد بہت سے صحابہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں کچھ ایسے بزرگ صحابہ آئے جو غزوہ بدر میں شریک تھے، اور ان کا درجہ اونچا سمجھا جاتا تھا۔ ان کو مجلس میں بیٹھنے کی جگہ نہ ملی تو وہ کھڑے رہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شرکائے مجلس سے فرمایا کہ وہ ذرا سمٹ سمٹ کر آنے والوں کے لیے جگہ پیدا کریں، اس کے باوجود ان کے لیے جگہ کافی نہ ہوئی تو آپ نے بعض شرکائے مجلس سے فرمایا کہ وہ اٹھ جائیں، اور آنے والوں کے لیے جگہ خالی کردیں۔ اس پر کچھ منافقین نے برا منایا کہ لوگوں کو مجلس سے اٹھایا جا رہا ہے۔ عام طور سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ معمول نہیں تھا، لیکن شاید کچھ منافقین نے آنے والوں کو جگہ دینے میں تردد کیا ہو، اس لیے آپ نے انہیں اٹھا دیا ہو۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں ایک تو مجلس کا عام حکم بیان فرمایا گیا کہ آنے والوں کے لیے گنجائش پیدا کرنی چاہیے، اور دوسرے یہ حکم بھی واضح کردیا گیا کہ اگر مجلس کا سربراہ کسی وقت محسوس کرے کہ آنے والوں کے لیے جگہ خالی کرنی چاہیے تو وہ مجلس میں پہلے سے بیٹھے ہوئے لوگوں کو یہ حکم دے سکتا ہے کہ وہ اٹھ کر نئے آنے والوں کو بیٹھنے کی جگہ دیں۔ البتہ کوئی نیا آنے والا خود کسی کو اٹھنے پر مجبور نہیں کرسکتا، جیسا کہ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہی تعلیم مذکور ہے۔
آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی