ایک
ہاؤسنگ سوسائٹی میں رہائش کے لئے ایک بڑا افسر آیا ، جو تازہ تازہ ریٹائر ہوا تھا۔
یہ
بوڑھا بڑا ریٹائرڈ افسر حیران اور پریشان ، ہر شام سوسائٹی پارک میں گھومتا ،
دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور کسی سے بات نہیں کرتا تھا –
ایک
دن وہ شام کے وقت ایک بزرگ کے پاس باتیں کرنے کے لئے بیٹھ گیا اور پھر اس کے ساتھ
تقریبا” روزانہ بیٹھنے لگا۔ اس کی گفتگو کا ہمیشہ ایک ہی موضوع رہتا تھا۔
“میں اتنا بڑا افسر تھا جس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ پوچھ سکتا ہے
، یہاں میں مجبوری وغیرہ میں آیا ہوں۔” اور وہ بزرگ اس کی باتیں سکون سے سنتے
تھے۔
ایک دن
جب “ریٹائرڈ” افسر نے دوسرے ساتھی کے بارے میں کچھ جاننے کی خواہش کی تو
اس بزرگ نے بڑی انکساری کے ساتھ اسے جواب دے کر دانشمندی کی بات بتائی –
اس نے
وضاحت کی:-
“ریٹائرمنٹ
کے بعد ہم سب فیوز بلب کی طرح ہو جاتے ہیں اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہتی کہ یہ
بلب کتنی وولٹیج کا تھا ، کتنی روشنی اور چمک دیتا تھا ، فیوز ہونے کے بعد اس بات
سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔
انہوں
نے جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “میں گذشتہ 5 سالوں سے سوسائٹی میں رہ رہا ہوں اور
کسی کو یہ نہیں بتایا کہ میں دو بار پارلیمنٹ کا ممبر رہا ہوں۔ یہاں ایک اور صاحب
ہیں وہ ریلوے کے جنرل منیجر تھے ، یہاں گلزار صاحب ہیں فوج میں بریگیڈیئر تھے ،
پھر ندیم صاحب ہیں جو ایک کمپنی کے کنٹری ہیڈ تھے ، انہوں نے یہ باتیں کسی کو نہیں
بتائی ، حتی کہ مجھے بھی نہیں ، لیکن ہم سب جانتے ہیں۔
“فیوز
کے تمام بلب اب ایک جیسے ہیں – چاہے وہ صفر واٹ ، 40 ، 60 ، 100 واٹ ، ہلوجن ہو یا
فلڈ لائٹ کے ہوں ، اب کوئی روشنی نہیں دیتا اور بے فائدہ ہیں۔ اور ہاں اس بات کی
آپ کو جس دن سمجھ آجائے گی ، آپ معاشرے میں سکون زندگی گزار سکیں گے۔
ہمارے
ہاں طلوع اور غروب آفتاب کو یکساں احترام دیا جاتا ہے ، لیکن اصل زندگی میں ہم
طلوع آفتاب کی قدر زیادہ کرتے ہیں جتنی جلدی ہم اس کو سمجھیں گے اتنا جلد ہی ہماری
زندگی آسان ہوجائے گی۔
لہذا فیوز
بلب ہونے سے پہلے ۔۔۔۔۔۔
جتنی بھی خیر
کی زیادہ سے زیادہ روشنی پھیلا سکتے ہو ۔۔۔۔پھیلا دو۔۔۔۔۔۔۔۔تاکہ کل کو جب اندھیرے
کمرے میں جا و ۔۔۔۔تو یہی روشنی کام آئے۔۔۔۔۔
ورنہ جانا تو
ہے ۔۔۔۔۔