*يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَـكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ۗ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِيْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِيْهِۗ وَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ حَمِيْدٌ (البقرہ2: 267)*
ترجمہ:
اے ایمان والو! اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو ان میں سے بری چیزوں کے خرچ کرنے کا قصد نہ کرو جسے تم خود لینے والے نہیں ہو ہاں اگر آنکھیں بند کر لو تو اور جان لو کہ اللہ تعالٰی بےپرواہ اور خوبیوں والا ہے۔
تشریح:
۱۔ احسن البیان: صدقے کی قبولیت کے لئے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو جیسا کہ گزشتہ آیات میں بتایا گیا ہے اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے اور یہ فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں اللہ تعالٰی اسے قبول نہیں فرماتا حدیث میں ہے ان اللہ طیب لا یقبل الا طیبا (اللہ تعالٰی پاک ہے پاک حلال چیز ہی قبول فرماتا ہے) دوسرے خبیث کے معنی ردی اور نکمی چیز کے ہیں ردی چیزیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں جیسا کہ آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ) 3۔ آل عمران;92) کا بھی مفاد ہے۔ اس کے شان نزول کی روایت میں بتلایا گیا ہے کہ بعض انصار مدینہ کی خراب اور نکمی کھجوریں بطور صدقہ مسجد میں دے جاتے جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (فتح القدیر۔ بحوالہ ترمذی وابن ماجہ وغیرہ)۔ یعنی جس طرح تم خود ردی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی ردی چیزیں خرچ نہ کرو بلکہ اچھی چیزیں خرچ کرو۔
۲)۔بیان القرآن:اللہ کے دین کے لیے خرچ کرنا ہے ‘ اللہ کے نام پر دینا ہے تو جو کچھ تم نے کمایا ہے اس میں سے اچھی چیز ‘ پاکیزہ چیز ‘ بہتر چیز نکالو۔ – (وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ) – ظاہر بات ہے کہ زمین سے جو بھی نباتات باہر آرہی ہیں ان کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ چاہے کوئی چراگاہ ہے تو اس کے اندر جو ہریاول ہے وہ اللہ ہی نے پیدا کی ہے۔ کھیت کے اندر آپ نے محنت کی ہے ‘ ہل چلایا ہے ‘ بیج ڈالے ہیں ‘ لیکن فصل کا اگانا تو آپ کے اختیار میں نہیں ہے ‘ یہ تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ع پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون ؟ چناچہ فرمایا کہ جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ کرو – (وَلاَ تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ ) – ایسا نہ ہو کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے ردّی اور ناکارہ مال چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو۔ مثلاً بھیڑ بکریوں کا گلہ ہے ‘ اس میں سے تمہیں زکوٰۃ کے لیے بھیڑیں اور بکریاں نکالنی ہیں تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ جو کمزور ہیں ‘ ذرا لاغر ہیں ‘ بیمار ہیں ‘ نقص والی ہیں انہیں نکال کر گنتی پوری کر دو ۔ اسی طرح عشر نکالنا ہے تو ایسا نہ کرو کہ گندم کے جس حصے پر بارش پڑگئی تھی وہ نکال دو ۔ تیمم کے معنی قصد اور ارادہ کرنے کے ہیں۔- (وَلَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ ط) – ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ تم محتاج ہوجاؤ اور تمہیں ضرورت پڑجائے ‘ پھر اگر تمہیں کوئی ایسی چیز دے گا تو تم قبول نہیں کرو گے ‘ اِلاّ یہ کہ چشم پوشی کرنے پر مجبور ہوجاؤ۔ احتیاج اس درجے کی ہو کہ نفیس یا خبیث جو شے بھی مل جائے چشم پوشی کرتے ہوئے اسے قبول کرلو۔ ورنہ آدمی اپنے طیب خاطر کے ساتھ ردّی شے قبول نہیں کرسکتا۔- (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ ) – یہاں غنی کا لفظ دوبارہ آیا ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ تم کسی محتاج اور ضرورت مند کو دے رہے ہو ‘ بلکہ یوں سمجھو کہ اللہ کو دے رہے ہو ‘ جو غنی ہے ‘ سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا ہے اور حمید ہے ‘ یعنی اپنی ذات میں خود محمود ہے۔ ایک تو کسی شے کی اچھائی یا حسن یا کمال ایسا ہوتا ہے کہ جسے ظاہر کیا جائے کہ بھئی دیکھو اس میں یہ خوبصورتی ہے۔ اور ایک وہ خوبصورتی ہوتی ہے جو ازخود ظاہر ہو۔ ع حاجت مشاطہّ نیست روئے دل آرام را تو اللہ تعالیٰ اتنا ستودہ صفات ہے کہ وہ اپنی ذات میں از خود محمود ہے ‘ اسے کسی حمد کی حاجت نہیں ہے۔
تفسیر ابنِ کثیر
خراب اور حرام مال کی خیرات مسترد:۔اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو صدقہ کرنے کا حکم
دیتا ہے کہ مال تجارت جو اللہ جل شانہ نے تمہیں دیا ہے سونا چاندی اور پھل اناج وغیرہ جو اس نے تمہیں زمین سے نکال کر دئیے ہیں، اس میں سے بہترین مرغوب طبع اور پسند خاطر عمدہ عمدہ چیزیں اللہ کی راہ میں دو ۔ ردی، واہیات، سڑی گلی، گری پڑی، بےکار، فضول اور خراب چیزیں راہ اللہ نہ دو ، اللہ خود طیب ہے وہ خبیث کو قبول نہیں کرتا، ہم اس کے نام پر یعنی گویا اسے وہ خراب چیز دینا چاہتے ہو جسے اگر تمہیں دی جاتی تو نہ قبول کرتے پھر اللہ کیسے لے لے گا ؟ ہاں مال جاتا دیکھ کر اپنے حق کے بدلے کوئی گری پڑی چیز بھی مجبور ہو کرلے لو تو اور کوئی بات ہے لیکن اللہ ایسا مجبور بھی نہیں وہ کسی حالت میں ایسی چیز کو قبول نہیں فرماتا، یہ بھی مطلب ہے کہ حلال چیز کو چھوڑ حرام چیز یا حرام مال سے خیرات نہ کرو، مسند احمد میں ہے رسول اللہ (ﷺ) فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دئیے ہیں، دنیا تو اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے دشمنوں کو بھی، ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے۔
اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دل اس کی زبان مسلمان نہ ہوجائے، کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےخوف نہ ہوجائیں، لوگوں کے سوال پر آپ نے فرمایا ایذاء سے مراد دھوکہ بازی اور ظلم و ستم ہے، جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کرجاتا ہے وہ سب اس کیلئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے، اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو اچھائی سے دفع کرتا ہے، خباثت خباثت سے نہیں مٹتی، پس دو قول ہوئے۔ ایک تو ردی چیزیں دوسرا حرام مال۔ اس آیت میں پہلا قول مراد لیناہی اچھا معلوم ہوتا ہے، حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کھجوروں کے موسم میں انصار اپنی اپنی وسعت کے مطابق کھجوروں کے خوشے لا کر دوستوں کے درمیان ایک رسی کے ساتھ لٹکا دیتے، جسے اصحاب صفہ اور مسکین مہاجر بھوک کے وقت کھالیتے، کسی نے جسے صدقہ کی رغبت کم تھی اس میں ردی کھجور کا ایک خوشہ لٹکا دیا، جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اگر تمہیں ایسی ہی چیزیں ہدیہ میں دی جائیں تو ہرگز نہ لو گے۔ ہاں اگر شرم ولحاظ سے بادل ناخواستہ لے لو تو اور بات ہے، اس کے نازل ہونے کے بعد ہم میں کا ہر شخص بہتر ہے بہتر چیز لاتا تھا (ابن جریر) ابن ابی حاتم میں ہے کہ ہلکی قسم کی کھجوریں اور واہی پھل لوگ خیرات میں نکالتے جس پر یہ آیت اتری اور حضور (ﷺ) نے ان چیزوں سے صدقہ دینا منع فرمایا،
حضرت عبداللہ بن مغفل فرماتے ہیں مومن کی کمائی کبھی خبیث نہیں ہوتی، مراد یہ ہے کہ بیکار چیز صدقہ میں نہ دو ، مسند میں حدیث ہے کہ حضور (ﷺ) کے سامنے گوہ کا گوشت لایا گیا، آپ نے نہ کھایا نہ کسی کو کھانے سے منع فرمایا تو حضرت عائشہ نے کہا کسی مسکین کو دے دیں ؟ آپ نے فرمایا جو تمہیں پسند نہیں اور جسے تم کھانا پسند نہیں کرتیں اسے کسی اور کو کیا دو گی ؟ حضرت براء فرماتے ہیں جب تمہارا حق کسی پر ہو اور وہ تمہیں وہ چیز دے جو بےقدر و قیمت ہو تو تم اسے نہ لو گے مگر اس وقت جب تمہیں اپنے حق کی بربادی دکھائی دیتی ہو تو تم چشم پوشی کرکے اسی کو لو گے، ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ تم نے کسی کو اچھا مال دیا اور ادائیگی کے وقت وہ ناقص مال لے کر آیا تو تم ہرگز نہ لوگے اور اگر لو گے بھی تو اس کی قیمت گھٹا کر، تو تم جس چیز کو اپنے حق میں لینا پسند نہیں کرتے اسے اللہ کے حق کے عوض کیوں دیتے ہو ؟ پس بہترین اور مرغوب مال اس کی راہ میں خرچ کرو اور یہی معنی ہیں آیت (لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ) 3 ۔ آل عمران ;92) کے بھی۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا اور عمدہ چیز دینے کا۔ کہیں اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ محتاج ہے، نہیں نہیں وہ تو بےنیاز ہے اور تم سب اس کے محتاج ہو،
یہ حکم صرف اس لئے ہے کہ غرباء بھی دنیا کی نعمتوں سے محروم نہ رہیں گے، جیسے اور جگہ قربانی کے حکم کے بعد فرمایا آیت (لَنْ يَّنَال اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ ) 22 ۔ الحج ;37) اللہ تعالیٰ نہ اس کا خون لے نہ گوشت، وہ تو تمہارے تقوے کی آزمائش کرتا ہے۔ وہ کشادہ فضل والا ہے، اس کے خزانے میں کوئی کمی نہیں، صدقہ اپنے چہیتے حلال مال سے نکال کر اللہ کے فضل اس کے بخشش اس کے کرم اور اس کی سخاوت پر نظریں رکھو، وہ اس کا بدلہ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر تمہیں عطا فرمائے گا وہ مفلس نہیں وہ ظالم نہیں، وہ حمید ہے تمام اقوال افعال تقدیر شریعت سب میں اس کی تعریفیں ہی کی جاتی ہیں، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، وہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں، وہ ہی تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، اس کے سوا کوئی کسی کی پرورش نہیں کرتا۔ حدیث میں ہے کہ ایک چوکا شیطان مارتا ہے اور ایک توفیق کی رہبری فرشتہ کرتا ہے۔ شیطان تو شرارت پر آمادہ کرتا ہے اور حق کے جھٹلانے پر اور فرشتہ نیکی پر اور حق کی تصدیق پر جس کے دل میں یہ خیال آئے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور جان لے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور جس کے دل میں وہ وسوسہ پیدا ہو وہ آعوذ پڑھے، پھر حضور (ﷺ) نے (آیت الشیطان الخ) کی تلاوت فرمائی (ترمذی) یہ حدیث عبداللہ بن مسعود سے موقوف بھی مروی ہے، مطلب آیت شریفہ کا یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے شیطان روکتا ہے اور دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس طرح ہم فقیر ہوجائیں گے، اس نیک کام سے روک کر پھر بےحیائیوں اور بدکاریوں کی رغبت دلاتا ہے، گناہوں پر نافرمانیوں پر حرام کاریوں پر اور مخالفت پر اکساتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس کے برخلاف حکم دیتا ہے کہ خرچ فی سبیل اللہ کے ہاتھ نہ روکو اور شیطان کی دھمکی کے خلاف وہ فرماتا ہے کہ اس صدمہ کے باعث میں تمہاری خطاؤں کو بھی معاف کر دوں گا اور وہ جو تمہیں فقیری سے ڈراتا ہے میں اس کے مقابلہ میں تمہیں اپنے فضل کا یقین دلاتا ہوں، مجھ سے بڑھ کر رحم و کرم، فضل و لطف کس کا زیادہ وسیع ہوگا ؟ اور انجام کار کا علم بھی مجھ سے زیادہ اچھا کسے حاصل ہوسکتا ہے ؟
حکمت سے مراد یہاں پر قرآن کریم اور حدیث شریف کی پوری مہارت ہے جس سے ناسخ منسوخ محکم متشابہ مقدم موخر حلال حرام کی اور مثالوں کی معرفت حاصل ہوجائے، پڑھنے کو تو اسے ہر برا بھلا پڑھتا ہے لیکن اس کی تفسیر اور اس کی سمجھ وہ حکمت ہے جسے اللہ چاہے عنایت فرماتا ہے کہ وہ اصل مطلب کو پالے اور بات کی تہہ تک پہنچ جائے اور زبان سے اس کے صحیح مطلب ادا ہوں، سچا علم صحیح سمجھ اسے عطا ہو، اللہ کا ڈر اس کے دل میں ہو، چناچہ ایک مرفوع حدیث بھی ہے کہ حکمت کا راز اللہ کا ڈر ہے، ایسے لوگ بھی دنیا میں ہیں جو دنیا کے علم کے بڑے ماہر ہیں، ہر امر دنیوی کو عقلمندی سمجھ لیتے ہیں لیکن دین میں بالکل اندھے ہیں، اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ دنیوی علم میں کمزور ہوں لیکن علوم شرعی میں بڑے ماہر ہیں۔ پس یہ ہے وہ حکمت جسے اللہ نے اسے دی اور اسے اس سے محروم رکھا، سدی کہتے ہیں یہاں حکمت سے مراد نبوۃ ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ حکمت کا لفظ ان تمام چیزوں پر مشتمل ہے اور نبوۃ بھی اس کا اعلیٰ اور بہترین حصہ ہے اور اس سے بالکل خاص چیز ہے جو انبیاء کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں، ان کے تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی طرف سے محرومی نہیں، سچی اور اچھی سمجھ کی دولت یہ بھی مالا مال ہوتے ہیں، بعض احادیث میں ہے جس نے قرآن کریم کو حفظ کرلیا اس کے دونوں بازوؤں کے درمیان نبوت چڑھ گئی، وہ صاحب وحی نہیں، لیکن دوسرے طریق سے کہ وہ ضعیف ہے منقول ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمرو کا اپنا قول ہے مسند کی حدیث میں ہے کہ قابل رشک صرف دو شخص ہیں جسے اللہ نے مال دیا اور اپنی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی اور جسے اللہ نے حکمت دی اور ساتھ ہی اس کے فیصلے کرنے اور اس کی تعلیم دینے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔ وعظ و نصیحت اسی کو نفع پہنچاتی ہے جو عقل سے کام لے، سمجھ رکھتا ہو، بات کو یاد رکھے اور مطلب پر نظریں رکھے۔