ایک صاحب تھے جو شادی کی تلاش میں کہیں لمبے نکل گئے اور شادی کی عمر نکل گئی۔ آخر ایک جوان لڑکی پسند آ گئی تو رشتہ بھیج دیا۔جوان لڑکی نے دو شرطیں رکھیں اور شادی پر تیار ہوگئی۔ پہلی یہ کہ ہمیشہ جوانوں میں بیٹھو گے۔ دوسرے یہ کہ ہمیشہ دیوار پھلانگ کے گھر آیا کرو گے۔ شادی ہوگئی۔ بابا جی جوانوں میں ہی بیٹھتے اور گپیں لگاتے۔ جوان ظاہر ہے صرف لڑکیوں کی اور پیار محبت کی ہی باتیں کرتے ہیں۔منڈیوں کے بھاؤ سے انھیں دلچسپی نہیں اور نہ وہ دیوارِ چین لگیایسے موضوعات سے کچھ لینا دینا۔ باباجی کا موڈ ہر وقت رومینٹک رہتا۔ گھر جاتے تو ایک جھٹکے سے دیوار پھلانگ کر گھر میں کود جاتے۔ آخر ایک دن بابا جی کے پرانے جاننے والے مل گئے۔ وہ انھیں گلے شکوے کر کے اور گھیر گھار کے اپنی پنڈال چوکڑی میں لے گئے۔ اب وہاں کیا باتیں ہونا تھیں۔ یار گھٹنوں کے درد سے مر گیا ہوں۔ بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں۔ یار میرا تو وضو ہی نہیں رہتا۔ میری تو بھائی جان ریڑھ کی ہڈی کا مہرہ کھل گیا ہے۔ ڈاکٹر کہتا ہے جھٹکہ نہ لگے۔ یار مجھے تو نظر ہی کچھ نہیں آتا۔ کل پانی کے بجائے مٹی کا تیل پی گیا تھا۔ ڈرپ لگی ہے تو جان بچی ہے۔ بابا جی جوں جوں ان کی باتیں سنتے گئے توں توں ان کا مورال زمین پر لگتا گیا۔جب ٹھیک پاتال میں پہنچا تو مجلس برخاست ہوگئی اور بابا جی گھسٹتے پاؤں کے ساتھ گھر کو روانہ ہوگئے۔ گھر پہنچ کر دیوار کو دیکھا تو گھر کی دیوار کے بجائے وہ دیوارِ چین لگی۔ ہمت نہ پڑی دیوار کودنے کی کہ کہیں بابے پھجے کی طرح چُک نہ نکل آئے۔ آخر ماڈل تو دونوں کا ایک ہی تھا۔ بابا جی نے کنڈی کھٹکھٹائی۔ کھٹ کھٹ کھٹ کھٹ۔ اندر سے بیوی بولی: اسی لیے بولا تھا جوانوں میں بیٹھا کر۔ لگتا ہے آج بڈھوں کی مجلس اٹینڈ کر لی ہے اسی لیے ہمت جواب دے گئی ہے۔
نتیجہ: انسان بوڑھا نہیں ہوتا مجلس اسے بوڑھا کر دیتی ہے۔ ماہرین نفسیات لکھتے ہیں کہ معلم اسی لیے جلد بوڑھے نہیں ہوتے کہ وہ بچوں کی مجلس میں رہتے ہیں۔ یوں وہ ماحول ان پر ٹائم اینڈ سپیس کے اثرات کو نیوٹرل کر دیتا ہے۔